مصطفیٰ عامر اغوا و قتل کیس: سندھ ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا
سندھ ہائیکورٹ نے مصطفیٰ عامر کیس میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ریمانڈ کی چاروں درخواستیں منظور کرلیں ۔
ڈان نیوز کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں مصطفیٰ عامر کیس میں ٹرائل کورٹ کا ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ریمانڈ کی چاروں درخواستیں منظور کرلیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے ملزم ارمغان قریشی کو آج ہی انسداد دہشت گردی عدالت نمبر 2 کے جج کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
قبل ازیں ملزم ارمغان قریشی کو بکتر بند گاڑی میں سخت سیکیورٹی میں جیل سے عدالت لایا گیا، ملزم کے والد بھی عدالت میں موجود تھے۔
دوران سماعت جسٹس ظفر احمد راجپوت نے ریمارکس میں کہا کہ پورا آرڈر ٹائپ ہے مگر ہاتھ سے وائٹو لگا کر جے سی کیا گیا ہے، پولیس ابھی تک لکھا ہوا ہے۔
افسران نے بتایا کہ ہم نے ریکارڈ کورٹ سے لیا ہے، محکمہ داخلہ سے آئے ہیں، محکمہ داخلہ کے حکام نے بتایا کہ رجسٹرار کا عہدہ خالی ہے جس کے پاس چارج ہے وہ عمرے پر گئیں ہیں۔
پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ ملزم کا باپ جج صاحب کے کمرے میں موجود تھا میں حلف اٹھا کر کہتا ہوں۔
عدالت نے کہا کہ وہ بات نہ کریں جو آپ نے درخواست میں نہیں لکھی ہے، عدالت نے سوال کیا کہ ملزم کے گھر سے کونسا اسلحہ برآمد ہوا؟
سرکاری وکیل نے بتایا کہ اسلحہ برآمدگی سے متعلق الگ ایف آئی آر درج کی گئی، دوران سماعت سرکاری وکیل کی جانب سے ٹرائل کورٹ میں ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پڑھ کر سنائی گئی۔
سرکاری وکیل نے موقف اپنایا کہ ملزم سے مغوی کا ایک موبائل فون ملا تھا، ریکارڈ کے مطابق ملزم کے خلاف پہلے بھی 5 مقدمات درج ہیں، ملزم پہلے بھی بوٹ بیسن تھانے میں درج بھتے کے مقدمے میں مفرور تھا ۔
عدالت نے سوال کیا کہ ٹرائل کورٹ نے کس وجہ سے جسمانی ریمانڈ سے انکار کیا ہے؟ سرکاری وکیل نے کہا کہ کوئی وجہ نہیں ہے، مار پیٹ کی وجہ سے جسمانی ریمانڈ نہیں ملا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں کیا تشدد ہوا ہے؟ ملزم ارمغان نے کہا کہ انہوں نے مجھ پر تشدد کیا ہے ،عدالت نے ہدایت کی کہ دیکھیں ان کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان ہے؟ عدالت کی ہدایت پر ملزم کی شرٹ اوپر کر دیکھایا گیا کوئی نشان نہیں ملا، جس پر ملزم ارمغان نے کہا کہ جسم کے نچلے حصے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ملزم ارمغان عرف آرمی کو انسداد دہشتگرد عدالت نمبر 2 میں پیش کرنے کاحکم
بعدازاں سندھ ہائی کورٹ نے محکمہ پراسیکیوشن کی انسداد دہشتگردی عدالت کے فیصلے کے خلاف درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے مختصر تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
عدالت نے پراسیکیوشن کی چاروں درخواستیں منظور کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کے 10 اور 11 فروری کے احکامات کالعدم قرار دے دیے۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ کیس کے تفتیشی افسر ملزم ارمغان عرف آرمی کو انسداد دہشتگردی عدالت نمبر 2 میں پیش کریں، انسداد دہشتگردی عدالت نمبر 2 پراسیکیوشن کی چاروں درخواستوں پر قانون کے مطابق نئے احکامات جاری کریں، تفصیلی حکم نامہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل ( ڈی آئی جی ) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل ( اے وی سی سی ) منتقل کیا گیا تھا۔
بعدازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیاگیا تھا،جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی ( سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اسکی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔
ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔
بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔
دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔