6 جنوری کو مصطفیٰ اور ارمغان کے درمیان کیا ہوا تھا؟ ملزم شیراز کے سنسنی خیز انکشافات
کراچی میں مصطفیٰ عامر قتل کیس کی تحقیقات کے دوران شریک ملزم شیراز نے سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں۔
ڈان نیوز کے مطابق مصطفیٰ عامر قتل کیس میں گرفتار شریک ملزم شیراز کی سنسنی خیز تفتیشی رپورٹ سامنے آگئی۔
رپورٹ کے مطابق ملزم شیراز نے بتایا ہے کہ ارمغان کے پاس بہت پیسہ تھا اس لیے دوستی کی، نیو ایئر نائٹ پر ارمغان نے اپنے بنگلے پر پارٹی رکھی، 5 جنوری کو ارمغان نے کال کرکے شیراز کو بنگلے پر بلایا، رات 10 بجے جب بنگلے پر پہنچا تو ارمغان کے ساتھ ایک لڑکی کو موجود پایا۔
تفتیشی رپورٹ کے مطابق ارمغان نے لڑکی سے جھگڑا کیا تھا اور لڑکی کے پاؤں پر خون لگا ہوا تھا، شیراز کے پہنچنے کے بعد ارمغان نے لڑکی کو آن لائن کیب میں واپس بھیج دیا۔
رپورٹ کے مطابق 6 جنوری کو مصطفیٰ نے کال کرکے ارمغان کے بنگلے پر شیراز کو بلایا، مصطفیٰ نے ارمغان کو ایک شاپر دیا جس کے بدلے میں ارمغان نے ڈیڑھ لاکھ روپے دیے، کچھ دیر بعد ارمغان نے مصطفیٰ کو گالیاں دینے کے بعد سیاہ رنگ کے ڈنڈے سے مارنا شروع کردیا، اس کے سر اور گھٹنوں پر مارا جس کے باعث اس کا خون بہنا شروع ہوگیا۔
تفتیشی رپورٹ کے مطابق ارمغان نے پھر ایک رائفل اٹھائی اور دیوار پر 2 فائر کیے، دھمکانے کے بعد مصطفیٰ کو اسی کی گاڑی میں ڈال دیا گیا اور بعد ازاں بلوچستان لے جاکر گاڑی سمیت جلا دیا گیا۔
تفتیشی رپورٹ کے مطابق ارمغان کے گھر پر خون کے نشانات کو ملازمین سے صاف کروایا گیا، ملزم نے بتایا کہ اسے علم نہیں ہے کہ مصطفیٰ کی والدہ کو تاوان کی کال کس نے کی۔
پولیس کے مطابق کیس میں گرفتار ملزم شیراز جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہے، ملزم سے مزید تفتیش کی جارہی ہے۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔
بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔
ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔
بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔
دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔