پاکستان، چین اور امریکا کے درمیان پُل بن سکتا ہے، بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان، چین اور امریکا کے درمیان پُل بن سکتا ہے۔
میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے چین اور امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات، صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے توقعات، بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور سیکیورٹی چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’اس مسابقت (چین بمقابل امریکا) کی رفتار کے پوری دنیا میں بہت واضح اثرات ہیں، پاکستانی نقطہ نظر سے دیکھاجائے تو تاریخی طور پر ہم نے تقسیم کرنے والی قوت کے بجائے پل بنانے والے کا کردار ادا کیا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ ہمیں ایک کیمپ میں رکھنا چاہتے ہیں تو ہم خود کو پُل بنانے والوں کے طور پر دیکھنا چاہیں گے، ہم نے ماضی میں سفارتی روابط قائم کرنے اور امریکا اور چین کے درمیان تعلقات میں یہ کردار ادا کیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ آگے چل کر ہم اپنے آپ کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھنا چاہیں گے جو اس تقسیم کو بڑھانے کے بجائے اس خلا کو پر کر سکے۔
ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کے بارے میں پوچھے جانے پر بلاول بھٹو زرداری نے ٹرمپ کو ’ڈیل میکر‘ قرار دیا اور کہا کہ ’خطے میں ہمیں درپیش مسائل کے پیش نظر ایسے موضوعات اور شعبے ہیں جن میں ہم امریکا کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں جو اس روڈ میپ کے اندر فٹ بیٹھتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا ہی ایک شعبہ بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ ’چین اور امریکا کے درمیان تنازع اور بھارت کو چین کے مقابلے میں ایک حریف کے طور پر کھڑا کرنے کی امریکی کوششوں سے خطے میں طاقت کے توازن پر اثر پڑتا ہے‘۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان اسلحے کی دوڑ کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک غربت، بے روزگاری جیسے دیگر شعبوں پر توجہ دے سکتے ہیں لیکن ’اگر امریکا بھارت کو خطے میں خالص سیکیورٹی فراہم کنندہ کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کرنے جا رہا ہے تو پاکستان اس دوڑ کو برقرار رکھنے کے لیے وہ سب کچھ کرے گا جو اسے کرنا ہوگا۔‘
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ’چین مستقل مستحکم رفتار پر گامزن ہے اور ملک کا چین کے ساتھ کاروبار کرنا سمجھ میں آتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیں باقی دنیا سے کاٹ دیا جائے‘۔
سلامتی کے مسائل
ایک روز قبل امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے اس بیان کے بارے میں کہ امریکا یوکرین کے معاملے پر ایک اچھے امن معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے روس کے ساتھ مذاکرات میں معاشی اور فوجی فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا ہے، بلاول نے کہا کہ ’یہ ہمارے لیے تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ ہم اس حقیقت کے عادی ہیں کہ امریکا امریکی مفادات کو اولین ترجیح دیتا ہے‘۔
انہوں نے 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین، افغان حکومت اور پاکستان سے مشاورت نہیں کی گئی، انہوں نے کہا کہ دنیا سے نمٹنے کے پرانے اصول بدل چکے ہیں، پاکستان سیکھ رہا ہے کہ اس کے ساتھ کیسے جڑنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو درپیش سیکیورٹی مسائل ایران سے پیدا نہیں ہو رہے بلکہ یہ افغانستان سے امریکی انخلا کا براہ راست نتیجہ ہے جس کے بعد عسکریت پسند تنظیموں کی بھرپور میزبانی میں تیزی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش جیسی کالعدم تنظیموں کو تقریباً ختم کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’سقوط کابل سے پہلے، ہم افغانستان میں نیٹو کے مقابلے میں پاکستان کے اندر ان عسکریت پسند تنظیموں کو ختم کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے میں زیادہ کامیاب تھے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو سیاسی منظر نامے پر جامع داخلی اتفاق رائے کی ضرورت ہے، اس کے بعد ہم علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سنجیدہ بات چیت کی پوزیشن میں ہوں گے کہ ہم اس گڑبڑ کے بارے میں کیا کرنے جا رہے ہیں‘۔