• KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:52pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:15pm
  • ISB: Zuhr 12:21pm Asr 4:18pm
  • KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:52pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:15pm
  • ISB: Zuhr 12:21pm Asr 4:18pm

مصطفیٰ عامر قتل کیس میں افواہیں پھیلانے پر پیکا ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی،ضیا لنجار

شائع February 20, 2025
— فائل فوٹو: ڈان نیوز
— فائل فوٹو: ڈان نیوز

وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے کہا ہے کہ کراچی میں مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کیس کے حوالے سے افواہیں اور من گھڑت بیانیے زیر گردش ہیں، افواہیں پھیلانے والوں کیخلاف پیکا ایکت کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

ڈان نیوز کے مطابق وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے کہا کہ کیس کی تفتیش اور دیگر امور میں غفلت، لاپروائی یا کوتاہی کےمرتکبین کے خلاف کارروائی کی جائے گی، کوئی کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔

جب یہ لڑکا لاپتہ ہوا، میں نے اسی وقت نوٹس لیا تھا۔ متعلقہ افسران کو کیس کے جلد سے جلد حل کے احکامات بھی دیے تھے۔

ضیا الحسن لنجار نے کہا کہ ڈی آئی جی سی آئی اے نے مقدمے کی تفتیش سے متعلق بریفنگ دی ہے، اس کیس اور تفتیش پر گہری نظر ہے، تفتیش کے جملہ پہلوؤں کو انتہائی غیر جانبدار اور میرٹ کے مطابق آگے بڑھایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ کیس کے حوالے سے افواہیں اور من گھڑت بیانیے زیر گردش ہیں، کیس کے حوالے سے انسداد دہشت کی عدالت کے جج نے جو بے ضابطگیاں کی ہیں، اس سلسلے میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو مکتوب ارسال کررہے ہیں، افواہوں اور من گھڑت بیانیے پر پیکا ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔

25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔

بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم ارمغان نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔

ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم ارمغان کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔

ملزم ارمغان نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔

ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز، ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔

دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔

پولیس حکام نے بتایا تھا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 فروری 2025
کارٹون : 20 فروری 2025