• KHI: Asr 4:53pm Maghrib 6:31pm
  • LHR: Asr 4:16pm Maghrib 5:55pm
  • ISB: Asr 4:18pm Maghrib 5:59pm
  • KHI: Asr 4:53pm Maghrib 6:31pm
  • LHR: Asr 4:16pm Maghrib 5:55pm
  • ISB: Asr 4:18pm Maghrib 5:59pm

ارمغان کے گھر کے قالین پر لگا خون مدعی مقدمہ سے میچ کرگیا، منی لانڈرنگ کی بھی تفتیش

شائع February 22, 2025
تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم ارمغان غیر قانونی کال سینٹر اور سافٹ ویئرہاؤس چلا رہا تھا، ساتھیوں کا پتہ لگانا ہے
— فائل فوٹو: ڈان نیوز
تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم ارمغان غیر قانونی کال سینٹر اور سافٹ ویئرہاؤس چلا رہا تھا، ساتھیوں کا پتہ لگانا ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی کے علاقے ڈیفنس کے رہائشی نوجوان مصطفیٰ عامر کے اغوا و قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت میں جمع کرائی گئی تفتیشی افسر کی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے۔

ڈان نیوز کے مطابق تفتیشی افسر نے رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ملزم ارمغان کے کمرے کے قالین پر لگے خون کا ایک نمونہ مدعی مقدمہ سے میچ ہوا ہے۔

ملزمان ارمغان اور شیراز نے دوران تفتیش بتایا ہے کہ واقعے سے ایک روز قبل زوما نامی لڑکی کو بھی اسی کمرے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کی نشان دہی پر زوما نامی لڑکی کا پتہ لگانا ہے، لڑکی کے خون کا نمونہ لینا ہے، اس کا ڈی این اے کرانا ہے، ملزمان ارمغان بوٹ بیسن، کلفٹن ، درخشاں اور ساحل تھانوں کے کئی مقدمات میں بھی مفرور ہے۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم ارمغان کے خلاف مفرور ہونے کے حوالے سے بھی کارروائی کرنی ہے، ملزم ارمغان غیر قانونی کال سینٹر اور سافٹ ویئرہاؤس چلا رہا تھا، ملزم ارمغان کے دیگر ساتھیوں نعمان وغیرہ کا پتہ لگانا ہے، ملزم ارمغان سے منی لانڈرنگ سے متعلق بھی تحقیقات کرنی ہے۔

یاد رہے کہ آج دوران سماعت مصطفیٰ عامر قتل کیس کا مرکزی ملزم ارمغان ایک بار پھر کمرہ عدالت میں گرگیا تھا، انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے ملزم ارمغان اور شیراز کے جسمانی ریمانڈ میں 5 دن کی توسیع کر دی تھی۔

پراسیکیوٹر جنرل نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کو بتایا تھا کہ سندھ ہائیکورٹ اور اے ٹی سی کورٹ ٹو میں بھی ملزم ایسے ہی گر گیا تھا، جب ملزم کا میڈیکل کرایا تو بالکل فٹ تھا۔

ملزم ارمغان نے الزام لگادیا تھا کہ مجھے کھانا بھی نہیں دیا جارہا ہے، ملزم ارمغان کی والدہ کی جانب سے طاہر رحمان تنولی نے وکالت نامہ پیش کیا تھا۔

عدالت نے ملزم سے استفسار کیا کہ کیا یہ آپ کے وکیل ہیں؟، جس پر ملزم نے انکار کر دیا تھا۔

ملزم ارمغان اور ملزم شیراز کی جانب سے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔

ملزم شیراز کے وکیل خرم عباس نے کہا تھا کہ میرے موکل کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے، ملزم شیراز کا یوٹیوبر انٹرویو کر رہے ہیں، مگر وکیل سے ملنے نہیں دیا جارہا ہے، بغیر لیڈی پولیس کے ملزم شیراز کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تھا۔

وکیل نے کہا کہ شیراز کے بہن کا لیپ ٹاپ بھی پولیس ساتھ لے گئی ہے، ملزم شیراز کا جسمانی ریمانڈ نہ دیا جائے۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔

25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔

بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔

ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔

ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا۔

بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔

ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔

کراچی پولیس کا کہنا تھا کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔

دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 23 فروری 2025
کارٹون : 21 فروری 2025