مصطفیٰ قتل کیس، مرکزی ملزم ارمغان کے ساتھی شیراز نے اہم راز فاش کردیے
کراچی میں مصطفیٰ اغوا اور قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے ساتھی شیراز نے انکشاف کیا ہے کہ نیو ایئرنائٹ پر ارمغان نے مقتول کے ساتھ ملکر منشیات کا استعمال کیا اور پھر اسے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
ڈان نیوز کے مطابق مصطفیٰ قتل کے ملزم شیراز نے کہا ہے کہ نیو ایئر نائٹ کو ارمغان مصطفیٰ سے ناراض ہوگیا تھا جب کہ مصطفیٰ اور ارمغان دوست نہیں ہیں، مصطفیٰ ارمغان کو منشیات سپلائی کرتا تھا۔
ملزم نے بتایا کہ مصطفیٰ پر کئی گھنٹے گھر میں تشدد کیا گیا اور مقتول کو جب گھر سے گاڑی میں ڈالا تو وہ زندہ تھا، مصطفیٰ کو تشدد کے بعد بلوچستان لے جا کر گاڑی سمیت جلا دیا گیا، ارمغان نے بلوچستان پہنچ کر مجھے چلنے کو کہا اور گاڑی کو آگ لگا دی۔
ملزم کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کی گاڑی کو آگ لگانے کے بعد ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ پیدل چلے اور پھر ایک ہوٹل پر ناشتہ کیا، ہوٹل والے نے ارمغان کے پاس اسلحہ دیکھ لیا تھا۔
شیراز نے مصطفیٰ سے لڑائی اور اس کے قتل سے متعلق مزید بتایا کہ لڑکی سے ناراضگی نے ارمغان کو پاگل کردیا تھا، مصطفیٰ اور ارمغان نے پہلے منشیات کا استعمال کیا اور پھر مصطفیٰ کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
ملزم شیراز کا کہنا تھا کہ منشیات کے استعمال کے بعد ارمغان نے ڈنڈا نکالا اور تشدد کرنا شروع کردیا اور پھر مصظفیٰ کو زخمی حالت میں گاڑی میں ڈالا، مصطفیٰ کو جب گھر سے گاڑی میں ڈالا تو وہ زندہ تھا، اسے کپڑے سے باندھ کر حب لے جایا گیا۔
شیراز نے انکشاف کیا کہ ارمغان نے گھر سے پیٹرول کا ڈرم لے کر مصطفیٰ کی گاڑی میں رکھا، مصطفی کے ہاتھ اور پاؤں سے خون نکل رہا تھا۔
مرکزی ملزم ارمغان کے قریبی دوست نے کہا کہ میں ڈر کے مارے ارمغان کے ساتھ تھا، مجھے ڈر تھا کہ اس کے پاس اسلحہ ہے، یہ مجھے بھی قتل نہ کر دے۔
ملزم کا کہنا تھا کہ ارمغان میرے بچپن کا دوست ہے ، تعلیم بھی ساتھ حاصل کی، کچھ عرصے پہلے ارمغان اور میری دوستی ختم ہوگئی تھی، ارمغان گھر آیا تو پھر دوبارہ دوستی ہوگئی۔
شیراز نے کہا کہ ارمغان کا لائف اسٹائل دیکھ کر متاثر ہوگیا تھا، مڈل کلاس کے پاس پیسوں کی ریل پیل نے حیران کردیا تھا، ارمغان اپنی والدہ اور والد سے بہت کم ملتا تھا وہ ذہنی طور پر مضبوط انسان ہے۔
مزید کہا کہ میں نے اور ارمغان نے کئی پارٹیاں ساتھ کی ہیں، لالچ اور لگژری لائف نے مجھے متاثر کیا ، نوجوانوں کو مشورہ ہے کہ وہ لگژری لائف سے متاثر نہ ہوں۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔
بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔
ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔
بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔
دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔