• KHI: Asr 4:53pm Maghrib 6:31pm
  • LHR: Asr 4:16pm Maghrib 5:55pm
  • ISB: Asr 4:18pm Maghrib 5:59pm
  • KHI: Asr 4:53pm Maghrib 6:31pm
  • LHR: Asr 4:16pm Maghrib 5:55pm
  • ISB: Asr 4:18pm Maghrib 5:59pm

کراچی: فرانزک لیب رپورٹس میں مصطفیٰ عامر کی لاش کی تصدیق ہوگئی

شائع February 22, 2025
— فائل فوٹو: ڈان نیوز
— فائل فوٹو: ڈان نیوز

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدوس حیدر نے تصدیق کی ہے کہ جامعہ کراچی کی لیبارٹی کے نتائج کے مطابق مواچھ گوٹھ میں ایدھی قبرستان سے قبرکشائی کر کے جس لاش سے نمونے اکٹھے کیے گئے تھے، اس کی شناخت 23 سالہ مصطفیٰ عامر کے نام سے ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ 6 جنوری کو ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں دوستوں کے ہاتھوں اغوا کے بعد بے دردی سے قتل کیے جانے والے 23 سالہ مصطفیٰ عامر کی قبر کشائی جوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودگی اور میڈیکل بورڈ کی نگرانی میں گزشتہ روز کی گئی تھی۔

ڈی این اے پروفائلنگ اور کراس میچنگ کے ذریعے لاش کی شناخت کے لیے کیمیائی تجزیے کے لیے مجموعی طور پر 11 نمونے جمع کیے گئے تھے۔

سی آئی اے سربراہ نے ڈان کو بتایا کہ کراچی یونیورسٹی کی فرانزک سائنس لیب سے رپورٹ موصول ہوگئی ہے، جس کے مطابق مقتول کی والدہ اور ڈی ایچ اے میں مرکزی ملزم ارمغان کے گھر میں کرائم سین سے لیے گئے نمونے میچ ہوگئے۔

ڈی آئی جی مقدس حیدر نے ریکارڈ وقت میں نتائج فراہم کرنے پر کراچی یونیورسٹی میں قائم کی گئی سندھ فرانزک ڈی این اے لیب کی کارکردگی کو سراہا، انہوں بتایا کہ یونیورسٹی کے متعلقہ ماہرین جمعہ کی پوری رات تک لیب میں موجود رہے اور ہفتہ کو رپورٹ پولیس کو جمع کروا دی۔

تفتیش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سربراہ سی آئی اے کا کہنا تھا کہ تفتیش کار دونوں ملزمان ارمغان اور اس کے ساتھی شیراز کو بلوچستان کے اس مقام پر لے گئے جہاں مقتول مصطفیٰ عامر کی لاش کو ٹھکانے لگایا گیا تھا، ملزم نے اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں سے جلی ہوئی کار اور مقتول کی لاش برآمد کی گئی تھی۔

مقدس حیدر کا کہنا تھا کہ مرکزی ملزم ارمغان کو شبہ تھا کہ مقتول مصطفیٰ ’اس کے کاروبار میں مداخلت کر رہا ہے‘، یہ قتل کے پیچھے اصل مقصد معلوم ہوتا ہے۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔

25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔

بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔

ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔

ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔

ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔

دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 23 فروری 2025
کارٹون : 21 فروری 2025