• KHI: Fajr 4:35am Sunrise 5:57am
  • LHR: Fajr 3:49am Sunrise 5:17am
  • ISB: Fajr 3:48am Sunrise 5:19am
  • KHI: Fajr 4:35am Sunrise 5:57am
  • LHR: Fajr 3:49am Sunrise 5:17am
  • ISB: Fajr 3:48am Sunrise 5:19am

کرنٹ اکاؤنٹ گزشتہ سال خسارے میں تھا، اس سال 70 لاکھ ڈالر سرپلس ہے، گورنر اسٹیٹ بینک

شائع April 14, 2025
مارچ 2025 میں ہیڈ لائن افراط زر کی شرح کم ہو کر 0.7 فیصد سال بہ سال رہ گئی، جو 1965 کے بعد سے کم ترین سطح ہے
— فوٹو: ڈان نیوز
مارچ 2025 میں ہیڈ لائن افراط زر کی شرح کم ہو کر 0.7 فیصد سال بہ سال رہ گئی، جو 1965 کے بعد سے کم ترین سطح ہے — فوٹو: ڈان نیوز

گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ گزشتہ سال خسارے میں تھا، تاہم اس سال 70 لاکھ ڈالر سرپلس ہے، تمام تر صورتحال کے باوجود ہم کرنٹ اکاؤنٹ کو سرپلس رکھنے میں کامیاب رہے ہیں، ایکسچینج ریٹ بھی انہی پالیسی اقدامات کے باعث مستحکم ہے، انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کا فرق بھی کم ہوچکا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق گورنر ا سٹیٹ بینک نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں فنانشل لٹریسی بینکنگ اینڈ فنانس سے متعلق گونگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فنانشل لٹریسی کو فروغ دینے کے لیے ایسے پروگراموں کا انعقاد خوش آئند ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2022 میں مہنگائی کا مسئلہ در پیش تھا، ہمیں کارپوریٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا، ہم نے سخت فیصلے کیے ہیں درآمدات کو کافی حد تک کم کیا ہے۔

جمیل احمد نے کہا کہ 11 ہزار تاخیر کا شکار درآمدات سے متعلق ایل سیز کے مسائل کو حل کیا گیا، مہنگائی کی شرح میں بتدریج کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے، مانیٹری پالیسی کمیٹی کی توقع کے مطابق مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی، گورنر ا سٹیٹ بینک نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوتا دیکھا گیا، کرنٹ اکاؤنٹ اس سال 70 لاکھ ڈالر سرپلس رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بیرونی ادائیگیاں 26 ارب ڈالر ہیں جن میں سے 16 ارب رول اوور یا ری فنانس ہوں گے، بقایا 10 ارب میں سے 8 ارب کی ادائیگی کرچکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مالی سال 25 کے اختتام تک جی ڈی پی نمو 2.5 سے 3.5 فیصد رہے گی، زرعی ترقی بہتر رہی تو معاشی نمو 4.2 فیصد تک ہوسکتی ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مارچ کے مہینے میں ترسیلات زر 4 ارب 10 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی ہیں۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی کارکنوں کی جانب سے ترسیلات زر میں فروری 2025 میں سال بہ سال تقریباً 40 فیصد اضافہ ہوا تھا اور یہ 3 ارب 12 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔

جنوری 2025 کے مقابلے میں ترسیلات زر میں 3.8 فیصد اضافہ ہوا، جس سے معیشت، حکومتی ذخائر اور درآمد کنندگان کے لیے لیکویڈیٹی کو انتہائی ضروری مالی مدد ملی۔

مالی سال 25 کے پہلے 9 ماہ (جولائی تا مارچ) کے دوران ترسیلات زر 28 ارب 70 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 33 فیصد زیادہ ہیں۔

اسٹیٹ بینک کے سربراہ نے کہا کہ جون تک زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے اشارے مل رہے ہیں، اگر زراعت گزشتہ سال کی کارکردگی سے مطابقت رکھتی تو ملک کی جی ڈی پی گروتھ 4.2 فیصد تک پہنچ جاتی۔

تاہم توقع سے کمزور زرعی سیزن کی وجہ سے جی ڈی پی کی شرح نمو اب 2.5 سے 3 فیصد کے درمیان رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

اے کے ڈی سیکیورٹیز کے مطابق مارچ کے دوران ترسیلات زر بنیادی طور پر سعودی عرب (98 کروڑ 70 لاکھ ڈالر)، متحدہ عرب امارات (84 کروڑ 20 لاکھ ڈالر)، برطانیہ (68 کروڑ 40 لاکھ ڈالر) اور امریکا (41 کروڑ 90 لاکھ ڈالر) آئیں۔

جنوری میں گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ ملک اپنے معاشی اہداف حاصل کر رہا ہے، قرضوں کی سطح اور ادائیگیوں کا توازن اب بھی کنٹرول میں ہے۔

2023 میں پاکستان کو دہائیوں کے بدترین معاشی بحران اور اب تک کی بلند ترین افراط زر کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 4 ارب 60 کروڑ ڈالر رہ گئے تھے، جو 3 ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں تھے۔

اس بحران نے حکومت کو ادائیگیوں کے توازن (بی او پی) کے بحران کی حمایت کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ حاصل کرنے پر مجبور کیا۔

آئی ایم ایف (جس نے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے امدادی پیکج کی منظوری دی ہے) کو توقع ہے کہ 2029 تک ملک کی ترقی کی شرح بتدریج بہتر ہو کر 4.5 فیصد ہو جائے گی۔

افراط زر کے حوالے سے گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ افراط زر کا دباؤ بھی اچھی سمت میں ہے، گزشتہ ماہ سی پی آئی افراط زر تاریخی 0.7 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے یہ بتا سکتا ہوں کہ ہم نے یہی پیشگوئی کی تھی، اور ہم نے 10 مارچ کو اپنی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے سامنے بات کی تھی۔

سی پی آئی افراط زر نومبر 2021 میں 10 فیصد سے اوپر چلا گیا تھا، اور جولائی تک لگاتار 33 مہینوں تک 2 ہندسوں میں رہا تھا، اس دوران مئی 2023 میں یہ شرح 38 فیصد تک پہنچ گئی تھی جس کی وجہ خوراک اور توانائی کی غیر معمولی قیمتیں تھیں۔

مارچ 2025 میں ہیڈ لائن افراط زر کی شرح کم ہو کر 0.7 فیصد سال بہ سال رہ گئی، جو دسمبر 1965 کے بعد سے کم ترین سطح ہے۔

یہ گراوٹ مارکیٹ کی توقعات اور وزارت خزانہ کے تخمینے دونوں سے تجاوز کر گئی، جس نے مارچ میں افراط زر کی شرح ایک فیصد سے ڈیڑھ فیصد کے درمیان ہونے کی پیش گوئی کی تھی۔

افراط زر کی شرح میں سست روی بنیادی طور پر گندم اور اس کی ذیلی مصنوعات کی کم قیمتوں، پیاز، آلو اور کچھ دالوں جیسی خراب ہونے والی اشیا اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ہے۔

کارٹون

کارٹون : 1 مئی 2025
کارٹون : 30 اپریل 2025