لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی 121 مقدمات میں کارروائی روکنے کی درخواست نمٹادی
لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی 121 مقدمات میں کارروائی روکنے کی درخواست نمٹادی اور کہا کہ وجوہات بعد میں جاری کردی جائیں گی۔
پی ٹی آئی چیئرمین کی طرف سے 121 مقدمات میں کارروائی روکنے کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دورانِ سماعت جسٹس علی باقر نجفی نے عمران خان نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے 16 مئی کو ایک درخواست دائر کی تھی، اس درخواست میں آپ نے استدعا کی کہ 9 مئی کے بعد درج مقدمات کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔
انہوں نے استفسار کیا کہ اسی نوعیت کا ریلیف آپ نے سپریم کورٹ سے بھی مانگا ہے، تو کیا آپ کو یہ درخواست واپس نہیں لینی چاہیے۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ مجھے صرف پانچ منٹ کا وقت دیں میں کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں۔
اس پر جسٹس علی باقر نے کہا کہ آپ کو زیادہ وقت دیں گے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ عدالت کا شکر گزار ہوں کہ ججز مختلف شہروں سے آکر بھی آج یہ لارجر بینچ میں کیس سن رہے ہیں جس پر جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ صرف ایک جج صاحب دوسرے شہر سے آئے ہیں۔
عدالت نے عمران خان کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ آج اپنے دلائل مکمل کریں جس پر وکیل نے کہا کہ سرکاری وکیل نے کہا کہ عمران خان کے خلاف سارے کیسز کی تفصیلات فراہم کردی ہیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ عمران خان نے سپریم کورٹ میں 9 مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنانے اور کارروائی روکنے کی درخواست دائر کی ہے، اس درخواست کے بعد ہائی کورٹ میں اسی نوعیت کی درخواست پر کارروائی کیسے ہوسکتی ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ ہمارے پاس جو درخواست ہے اس میں مختلف نکات اٹھائے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کی عمر 71 برس ہے اور ان پر دہشت گردی کے مقدمات بنائے گئے ہیں، 71 برس کی عمر میں جرائم کے مقدمات کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے کہا کہ آپ کے مؤکل غیر معمولی ہیں جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جی بالکل، وہ بہت فٹ ہیں اور ہمیں اس بات کا طعنہ ملتا ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ پولیس یہ بتائے کہ 9 مئی کو جب عمران خان قومی احتساب بیورو (نیب) کے پاس تھے تو پھر مقدمات کیوں ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ پولیس بتائے کہ عمران خان کے خلاف کیا شواہد موجود ہیں۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے کہا کہ کیا آپ نے 9 مئی کے واقعات میں درج مقدمات میں ضمانت لی ہے جس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ہم نے ضمانتیں لی ہیں۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے استفسار کیا کہ تو پھر آپ یہ شواہد والی بات متعلقہ عدالت میں کریں، عدالت نے ہر موقع پر درخواست گزار کو ریلیف دیا اور انصاف تک رسائی کو یقینی بنایا۔
جسٹس علی باقر نجفی نےکہا کہ آپ عدالت سے اور کیا چاہتے ہیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں شروع دن سے کہتے آئے ہیں کہ 100 سے زائد مقدمات ہیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ یہ کرسٹل کلئیر ہے کہ صرف پنجاب میں 9 مقدمات ہیں جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں یہ بتائیے گا کہ اب آپ کو آج کے دن کیا ریلیف چاہیے، ہم نے اس پر سرکاری وکیل کے اعترضات سن لیے ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل نے کہا کہ عمران خان سابق وزیراعظم ہیں مگر انہیں سیکیورٹی نہیں دی گئی۔
جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ کیا آپ نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ ہائی کورٹ نے عمران خان کو سیکیورٹی دی جس میں 123 پولیس اہلکاروں کی سیکیورٹی دی گئی اور عمران خان کے وکلا نے اس سیکیورٹی کی تصدیق بھی کی۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ دیکھیں آپ ہر معاملے پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہ کریں، آپ ہر روز کہتے ہیں کہ سیکیورٹی خطرات ہیں، آپ نے سیکیورٹی کی تصدیق خود کی پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سیکیورٹی نہیں دی گئی۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ اگر تصدیق کی دوبارہ سیکیورٹی واپس لی گئی تو آپ کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا جو آپ نے نہیں کیا۔
عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ یہ کہتے ہیں بدنیتی سے ایک کے بعد دوسرا مقدمہ درج کیا گیا جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ القادر ٹرسٹ میں عمران خان اسلام ٰآباد ہائی کورٹ میں تھے، ہم دیکھتے ہیں کہ فاضل ججز عدالتوں کے اندر سے ملزمان کو گرفتار کروا دیتے ہیں۔
جس پر عدالت نے کہا کہ آپ اسلام آباد ہائی کورٹ کی نہیں پنجاب کی بات کریں۔
سرکای وکیل نے کہا کہ جتنا ریلیف عمران خان کو عدالتوں سے مل رہا ہے تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا، اس پر جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ آپ کو اس عدالت کے سامنے یہ بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔
جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ یہاں صبح سے شام تک ہر ملزم کو حفاظتی ضمانتیں ملتی ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی 121 مقدمات میں کارروائی روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تاہم بعد میں جاری مختصر فیصلے میں درخواست نمٹانے کا حکم جاری کردیا۔