کور کمانڈر ہاؤس حملہ کیس: ناقص معاونت پر لاہور ہائیکورٹ کا استغاثہ، پولیس حکام پر اظہار برہمی
لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے کورکمانڈر ہاؤس حملہ کیس میں فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ اور دیگر کی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواستوں کی سماعت کے دوران ناقص معاونت فراہم کرنے پر استغاثہ اور پولیس حکام پر برہمی کا اظہار کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سماعت کے آغاز میں بینچ کی سربراہی کرنے والی جسٹس عالیہ نیلم نے تفتیشی افسر کو خبردار کیا کہ اگر وہ دوبارہ وقت پر عدالت میں پیش نہ ہوئے تو توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی۔
سی سی پی او بلال صدیق کامیانہ نے بینچ کو یقین دہانی کروائی کہ تفتیشی افسر آئندہ سماعتوں پر وقت پر حاضر ہوں گے۔
جناح ہاؤس حملہ کیس میں چالان کے بارے میں پوچھے جانے پر سی سی پی او نے بینچ کو بتایا کہ چالان ٹرائل کورٹ میں جمع کرا دیا گیا ہے، تاہم ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے جانچ پڑتال کے لیے چالان استغاثہ کو واپس کر دیا، اس پر بینچ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ چالان ابھی تک جمع نہیں ہوا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر فرہاد علی شاہ نے بینچ کو بتایا کہ جناح ہاؤس، جوکہ کور کمانڈر کی رہائش گاہ بھی ہے، پر حملے کے دوران 2 افراد ہلاک اور 46 زخمی ہوئے، دونوں مقتولین (عبداللہ اور عبدالقادر) کو سر میں گولی ماری گئی تھی، اس کیس میں 250 مشتبہ افراد کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا گیا ہے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ خدیجہ شاہ کو جیو فینسنگ کے ذریعے جائے وقوع پر موجودگی ثابت ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، استغاثہ کے گواہوں نے بھی شناختی پریڈ کے دوران اُن کی شناخت کی۔
انہوں نے بتایا کہ خدیجہ شاہ نے واقعہ کے دوران اپنے موبائل فون سے 5 کالز کیں اور 9 مئی کے فسادات سے پہلے اور بعد میں اشتعال انگیز ٹوئٹس پوسٹ کیں اور وہ جناح ہاؤس کی چیزیں لوٹنے مین بھی ملوث تھیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ پراسیکیوشن نے واقعے کی کل 600 ویڈیوز میں سے گھر کے اندر کی ایک بھی ویڈیو نہیں لگائی، کیا پولیس نے میڈیا سے ویڈیو فوٹیج حاصل کی؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ مین اسٹریم میڈیا کے صحافی کور کمانڈر ہاؤس کے باہر موجود تھے، صحافی ہونے کے دعویدار کچھ یوٹیوبرز نے گھر کی حدود میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کی ویڈیوز بنائی تھیں۔
خدیجہ شاہ کے وکیل سمیر کھوسہ نے بتایا کہ درخواست گزار کو 19 مئی کو ان کے شوہر اور والد کے ہمراہ اٹھالیا گیا تھا، لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد اُن کے شوہر اور والد کو رہا کیا گیا تھا، تاہم وکیل نے اس حکم کی کاپی پیش کرنے کے لیے وقت مانگا۔
دیگر درخواست گزاروں/مشتبہ افراد کے وکیل نے کہا کہ ان کے مؤکل بھی اس مبینہ واقعہ میں موجود نہیں تھے، انہوں نے کہا کہ درخواست گزاروں کے موبائل فون ریکارڈ نے پولیس کے دعوے کی تردید کردی ہے، بینچ آج دوبارہ اس کیس کی سماعت کرے گا۔
دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے خدیجہ شاہ کی ایک درخواست نمٹا دی، جس میں ان کے خلاف مقدمات کی تفصیلات طلب کی گئی تھیں۔
پنجاب پولیس کی جانب سے ایک لا آفیسر نے رپورٹ درج کی، جس میں کہا گیا کہ 9 مئی کے فسادات سے متعلق درخواست گزار کے خلاف صرف 2 مقدمات درج کیے گئے تھے۔
دریں اثنا بینچ نے درخواست نمٹا دی اور پولیس کو کسی بھی نامعلوم کیس میں درخواست گزار کو ہراساں کرنے کے خلاف تنبیہ کی۔
دریں اثنا منگل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 15 ملزمان کی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواستوں کی سماعت کے دوران جناح ہاؤس حملہ کیس کا ریکارڈ پیش نہ کرنے پر جے آئی ٹی کے تمام اراکین کو شوکاز نوٹس جاری کر دیے۔
جج ارشد جاوید نے صنم جاوید اور دیگر کی درخواستِ ضمانت پر سماعت کی، جج نے ریکارڈ پیش نہ کرنے پر تفتیشی افسر کو تنبیہ کی اور جے آئی ٹی کے تمام ارکان کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا، علاوہ ازیں انہوں نے آج جے آئی ٹی اراکین کو ذاتی حیثیت میں طلب بھی کرلیا۔