نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ
سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) قوانین میں ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
’ڈان نیوز‘ کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ مقدمے کی سماعت کررہا ہے، جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ ہیں، سابق وزیر اعظم عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش کردیا گیا۔
سماعت کے آغاز پر عدالتی معاون فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ میں نے اپنی تحریری معروضات تیار کر لی ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنی معروضات عدالت میں جمع کروا دیں، کیا آپ فیصلے کو سپورٹ کر رہے ہیں ؟ فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ میں جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ کو سپورٹ کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ مخدوم علی خان کے دلائل کو اپنا رہے ہیں؟ فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ میرا مؤقف وہی ہے لیکن دلائل اپنے ہیں، میں نے تحریری معروضات میں عدالتی فیصلے کے مختلف نکات کی نشاندہی کی ہے، میں نے سپریم کورٹ فیصلے پر اپنے دلائل تحریر کیے ہیں۔
فاروق ایچ نائیک کے بعد عمران خان کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے، خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کردیا، اس موقع پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ بتائیں کونسا بنیادی حق نیب ترامیم سے متاثر ہوا ہے؟ وکیل ضواجہ حارث نے بتایا کہ مرکزی کیس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تفصیل سے بتا چکا ہوں، نیب ترامیم آرٹیکل 9،14 ،25 اور 24 کی خلاف ورزی ہیں۔
صرف منتخب پبلک آفس ہولڈر پر نیب کا اختیار کیوں رکھا گیا؟ جسٹس اطہر من اللہ
خواجہ حارث نے مزید کہا کہ مشرف سے پہلے بھی احتساب بیورو موجود تھا، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صرف منتخب پبلک آفس ہولڈر پر نیب کا اختیار کیوں رکھا گیا، غیر منتخب پبلک آفس ہولڈر پر کیوں نیب کا اختیار نہیں رکھا گیا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ صرف سیاسی احتساب چاہتے ہیں؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے نیب آرڈیننس 1999 چیلنج نہیں کیا، ہم نے نیب ترامیم 2022 چیلنج کی تھیں، میں بینچ پر اور انٹرا کورٹ اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا، سپریم کورٹ میں مرکزی درخواست قابل سماعت تھی۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نیب ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں؟ کیا آپ کو نیب پر مکمل اعتماد ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ میں دلائل دوں گا کہ اقلیتی رائے درست نہ تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ کیا آپ 90 دنوں میں نیب ریمانڈ سے مطمئن ہیں؟ کیا آپ 50 کرڑو سے کم کرپشن پر بھی نیب کی کارروائی کے حامی ہیں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بنا تو میں عدالت میں بیٹھنا ہی چھوڑ دیا، اس وقت یہ بحث چل رہی تھی کہ اختیار میرا ہے یا کسی اور کا، باہر جاکر بڑے شیر بنتے ہیں، سامنے آکر کوئی بات نہیں کرتا، اصولی مؤقف میں سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
اگر آپ اتنے ہی ایماندار تھے تو ایمنسٹی کیوں دی؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج مانیٹرنگ جج تھے، اس کیس میں جے آئی ٹی تھی، جس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی جیسے طاقتور ادارے بھی تھے، بتائیں اس کیس کا کیا بنا؟ اُس کیس میں آپ وکیل تھے۔
اس پر وکیل عمران خان نے جواب دیا کہ طاقتور اداروں کی جے آئی ٹی میں شمولیت کے باوجود بھی کچھ ثابت نا ہوسکا۔
بعد ازاں جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر کسی نے گھر بنایا اس کے پاس رسید نہیں ہوں گی، کیا رسید مانگنا کسی کو بلیک میل کرنے کے مترادف نہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو آپ کے مرکزی کیس میں کلائنٹ تھے اگر انہیں آج کہہ دیں کہ تمام اثاثوں کا جواب دیں تو آپ کے لیے مشکل ہوجائے گا،
چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ اگر آپ اتنے ہی ایماندار تھے تو ایمنسٹی کیوں دی؟ برطانیہ کی مثال دی جاتی ہے بتائیں وہاں کیوں ایمنسٹی نہیں دی جاتی؟
وفاقی حکومت کی عمران خان کے وکلا تک رسائی نہ دینے کے مؤقف کی تردید
اس موقع پر وفاقی حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے وکلا تک رسائی نہ دینے کے بیان کی تردید کردی۔
وفاقی حکومت نے عمران خان کے مؤقف کی تردید میں سپریم کورٹ میں اضافی دستاویزات جمع کروا دیں، وفاقی حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ اہل خانہ اور لیگل ٹیم کی ملاقاتوں کی فہرست بھی جمع کروا دی۔
وفاقی حکومت کی رپورٹ کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں وکلا رسائی نہ دینے کا مؤقف اپنایا، عمران خان کا قید تنہائی میں ہونے کا مؤقف بھی غلط ہے، عدالت مناسب سمجھے تو عمران خان کے بیان اور حقیقت کو جانچنے کے لیے کمیشن بھی مقرر کر سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم کو جیل میں کتابیں، ایئر کولر، ٹی وی سمیت تمام ضروری سہولیات فراہم کی گئیں ہیں۔
بعدازاں جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب کون کون سی نیب ترامیم کو چیلنج کیا تھا؟وہ لکھوا دیں، آپ نے سیکشن نائن اے فائیو میں ترمیم کو چیلنج کیا تھا، آپ نے سیکشن 14 کے حذف کرنے کو چیلنج کیا تھا، خواجہ حارث نے بتایا کہ ہم نے سیکشن دو میں ترامیم کا اطلاق ماضی سے کرنے کو چیلنج کیا تھا، سیکشن 4، 16 ،21 جی اور سیکشن 25 ڈی میں ترمیم کو چیلنج کیا تھا۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ان میں سے وہ ترامیم بھی چیلنج کی گئی جو عمران خان خود بھی آرڈیننس سے کرتے رہے؟ اور اگر ایسا کیا گیا تو کیوں کیا گیا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ کون کون سی ترامیم کو کالعدم کیا گیا وہ بھی بتا دیں؟ بعد ازاں خواجہ حارث نے ترامیم کی تفصیل لکھوا دیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ سیکشن 19 اے فائیو میں ترمیم کو کس بنیادی حق کے متاثر ہونے پر کالعدم کیا گیا؟ عمران خان کے وکیل نے بتایا کہ نائن اے فائیو آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ہے، اس کیس میں پراسیکیوشن نے صرف کسی شخص کے ذرائع آمدن اور اس کے اثاثوں میں فرق کو ثابت کرنا ہوتا ہے، آمدن اور اثاثوں میں فرق کا جواز پبلک آفس ہولڈر نے دینا ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ایک اثاثوں کے کیس میں ہی سپریم کورٹ نے مانیٹرنگ جج لگایا، ایک پاور فل جے آئی ٹی بھی بنی پھر اس کیس میں آپ ملزم کے وکیل اور میں جج تھا، آپ بتائیں اس کے بعد اس کیس کا کیا بنا؟ اب ترمیم میں نیب پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ اثاثوں میں کرپشن بھی ثابت کرے، اس ترمیم سے کسی کے بنیادی حقوق کیسے متاثر ہو گئے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کسی قانون کا غلط استعمال ہوتا رہا تو یہ ایک الگ بات ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس میں وقفہ کردیا، وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دوبارہ دلائل کا آغاز کر دیا۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ خواجہ صاحب اور کتنا وقت چاہیے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے دو گھنٹے چاہیے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے دریافت کیا کہ کیا ترامیم کرنا پارلیمنٹ کا اختیار نہیں تھا؟ وکیل نے بتایا کہ اسفند یارولی کیس میں سپریم کورٹ نیب کی تمام شقوں کا جائزہ لے چکی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر پی سی او نہ ہوتا تو شاید تب پورا نیب قوانین اڑا دیا جاتا، وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے ایک لسٹ جمع کرائی تھی، لسٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2019 میں اس وقت کی حکومت نے نیب ترامیم کی تھیں، مخدوم علی خان کے مطابق وہ ترمیم کریں تو غلط اگر پی ٹی آئی کرے تو ٹھیک۔
اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ 2019 کی ترامیم پر بعد میں بات کروں گا، جسٹس جمال مندو خیل نے مزید دریافت کیا کہ جو مقدمات نیب سے نکلیں گے وہ کہاں جائیں گے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نیب ہمیں ایک فہرست دے کہ کون سے مقدمات کس کس عدالت کو منتقل ہوں گے؟ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کون کون سے جرائم ہیں جن کو ترامیم میں ختم ہی کر دیا گیا ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایقا کہ ملک میں ایف بی آر پہلے ہی موجود ہے وہاں ایف بی آر کے معاملے پر آپ ایمنسٹی دے دیتے ہیں، الیکشن کمیشن نے اثاثوں کے الگ گوشوارے بنا رکھے ہیں، انکم ٹیکس کی تفصیل کیوں نہیں مانگی جاتی اس طرف کیوں نہیں جاتے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ آپ کو آئین سے بتانا ہوگا ترامیم سے حقوق کیسے متاثر ہوئے؟ ترامیم سے تو نیب سے ڈریکونین اختیارات واپس لیے گئے۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ نے گولڈ رولیکس پہنی ہو تفیشی آپ سے پوچھے کہاں سے لی تو سارا بوجھ آپ پر آجائے گا، تفتیشی کا کام تو آسان ہو گیا، ایمنسٹی اسکیم دینا کیا نیب قانون کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟
عوام کی طاقت، ووٹر کی طاقت کو کمزور کیوں کہہ رہے ہیں؟ عدالت
جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ آپ کیوں چاہتے ہیں کارروائی ہر معاملے پر نیب ہی کرے نیب پر اتنا اعتبار کیوں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہمیں دکھانا ہوگا ترامیم میں غیر آئینی کیا تھا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے رہمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے اثاثوں کے سیکشن کو صرف اسٹرکچر کیا، چاہتی تو اسے حذف بھی کر دیتی، مزید کہا کہ کیا برطانیہ میں نیب جیسا ادارہ ہے؟ پھر نیب پر آپ کو اتنا اعتماد کیوں ہے؟ عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ نیب قانون اور اسے چلانے والوں میں فرق ہے، مجھے نیب پر اعتماد نہیں میں قانون کی بات کررہا ہوں، دوسرے خلیفہ سے ان کے کرتے کا سوال پوچھا گیا تھا۔
جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیے کہ ہمارے خلیفہ سے عام آدمی نے پوچھا تھا، عام آدمی آج بھی پوچھ سکتا ہے، اس پر وکیل نے کہا کہ عام آدمی تو بیچارہ کمزور ہوتا ہے۔
ان کی اس بات پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ عوام کی طاقت، ووٹر کی طاقت کو کمزور کیوں کہہ رہے ہیں؟
بعد ازاں خواجہ حارث نے بتایا کہ 9 اے 5 کو ترمیم کے بعد جرم کی تعریف سے ہی باہر کردیا گیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جسٹس منصور نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ کیسز دیگر فورمز پر جائیں گے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایمنسٹی پارلیمنٹ نے نہیں دی تھی، وکیل نے بتایا کہ ایمنسٹی سے فوجداری پہلو ختم نہیں ہوا۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ اربوں کی جائیداد کا غبن کرکے کروڑوں روپے کی رضاکارانہ واپسی کا اختیار بھی ایمنسٹی ہے، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایمنسٹی حکومت کی پالیسی ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے بتایا کہ ایمنسٹی سے حکومت جو کام ختم کرسکتی ہے وہ کام پارلیمنٹ کیوں ختم نہیں کرسکتا؟
اس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ رضاکارانہ رقم واپسی پر عملدرآمد سپریم کورٹ نے روک رکھا ہے، رضاکارانہ رقم واپسی اور پلی بارگین کی رقم کا تعین چیئرمین نیب کرتا ہے۔
بعد ازاں وکیل خواجہ حارث کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کا حوالہ دیا گیا۔
انہوں نے دریافت کیا کہ بحریہ ٹاؤن کیس میں پلی بارگین ہوئی تھی یا رضاکارانہ رقم واپسی؟ 460 ارب روپے کے عوض سپریم کورٹ نے ریفرنس ختم کردیے تھے۔
ایک نیب کا سزا یافتہ شخص پلی بارگین کرکے گورنر بن گیا، چیف جسٹس
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اگر تمام مقدمات متعلقہ فورم پر چلے جائیں تو کیا کوئی اعتراض ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ نیب ترامیم کالعدم کیے بغیر مقدمات منتقل نہیں ہوسکتے، جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب کی 2023 ترامیم مقدمات منتقلی کے حوالے سے تھیں، سپریم کورٹ میں مقدمے کے دوران منتقلی سے متعلق نیب ترمیم کا جائزہ نہیں لیا۔
اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ممکن ہے نیب ترامیم کا آپ کے مؤکل کو فائدہ ہو، خواجہ صاحب آپ کا ریکارڈ ہے، کیس ترپن سماعتوں میں سنا گیا۔
وکیل نے مزید کہا کہ ایمنسٹی پروٹیکشن آف اکنامکس ایکٹ کے تحت ہوتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ایک نیب کا سزا یافتہ شخص پلی بارگین کرکے گورنر بن گیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایک بات پر تو قوم کے لیے بیٹھ جائیں، جوائنٹ سیشن میں نیب قانون کو دوبارہ ٹھیک کرلیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خرابیوں کا مل بیٹھ کر حل نکالنا چاہیے، اس پر عدالتی معاون فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ صدر مملکت نے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی بات کی لیکن کوئی نہیں بیٹھا، اس موقع پر چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کیا کہ آپ بیٹھ جائیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مائنڈ نا کیجئے گا آپ کو نیب پر بہت اعتماد ہے، کیا اب نیب ٹھیک ہوگیا ہے ؟ چیف جسٹس نے بتایا کہ نہیں اب ٹھیک نہیں ہے، نیب پہلے ٹھیک تھا۔
اس کے ساتھ ہی خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد عدالت نے کارروائی میں مختصر وقفہ کردیا۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ماضی میں نیب کیس میں ضمانت کا حق نہ دینے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 2017 سے 2020 تک اس عدالت کا نیب سے متعلق کیا فیصلہ تھا؟ جو حقیقت ہے، وہ حقیقت ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلمنٹ کو کسی نے منع نہیں کیاکہ نیب قوانین کو سخت یا نرم نہ کریں، کل کو کوئی پارلمنٹ نیب قوانین کو سخت بھی کرسکتی ہے، آپ کی بات مان کر ہم ترامیم ختم کریں، کل پارلمنٹ نیب قانون ہی ختم کردےتوکیا ہوگا، 1999 میں مارشل لاء نہ ہوتاتو نیب قانون کا وجود بھی آج نہ ہوتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب آرڈیننس 1999 سے پہلے احتساب ایکٹ موجود تھا، ایسا ہی تھا، احتساب ایکٹ کا مقصد بھی سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا ہی تھا۔
تکلیف ہوئی کہا گیا غیر ذمہ دار ہوں، لائیو نشر نہیں کیا جائے گا، عمران خان
سپریم کورٹ نے وکیل خواجہ حارث کو 7 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی، خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمنٹ ایسے قوانین نہیں بنا سکتی جو عوامی اعتماد ختم کرے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نیب کے ادارے میں لوگ خود کرپشن کریں کون دیکھے گا ، خواجہ حارث نے کہا کہ ادارے پر ادارہ تو نہیں بٹھایا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی پر تو آپ کو بھروسہ کرنا ہوگا، مدت سے عدالتی فیصلوں نے پارلیمنٹ کے اختیار کی نفی نہیں کی۔
اس کے ساتھ ہی خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد عدالت نے کارروائی میں مختصر وقفہ کردیا، وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ ہمیں سن سکتے ہیں، کیا آپ کیس سے متعلق کچھ مزید کہنا چاہتے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے گزشتہ سماعت پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی، مجھے تکلیف ہوئی کہا گیا کہ میں غیر ذمہ دارسا کریکٹر ہوں، اس لیے لائیو نشر نہیں کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں کرتی، آپ نظر ثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں، عمران خان نے کہا کہ میں ایسا کوئی خطرناک آدمی نہیں ہوں۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ خان صاحب آپ کو غیر ضروری ریلیف ملا، آپ صرف کیس پر رہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ججز اپنے فیصلوں کی خود وضاحت نہیں کرتے، آپ صرف کیس پر رہیں،جج اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں دیا کرتے، آپ نظر ثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔
’نیب ہمارے دور میں بھی ہمارے ماتحت نہیں تھا‘
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیل کی مخالفت کرتاہوں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم ہوئیں تو میرا نقصان ہوگا، مجھے 14 سال کی قید ہوگئی کہ میں نے توشہ خانہ تحفےکی قیمت کم لگائی، 2 کروڑ روپے کی میری گھڑی تین ارب روپے میں دکھائی گئی۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میں کہتاہوں نیب کا چیئرمین سپریم کورٹ تعینات کرے، حکومت اور اپوزیشن میں چیئرمین نیب پر اتفاق نہیں ہوتا تو تھرڈ امپائر تعینات کرتاہے، نیب اس کے بعد تھرڈ امپائر کے ماتحت ہی رہتاہے۔
انہوں نے کہا کہ نیب ہمارے دور میں بھی ہمارے ماتحت نہیں تھا، برطانیہ میں جمہوری نظام اخلاقیات، قانون کی بالادستی، احتساب پر ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے بانی پی ٹی آئی سے استفسار کیا کہ آپ کیا کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ ترمیم کرسکتی ہے یا نہیں؟ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ فارم 47 والے ترمیم نہیں کرسکتے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ پھر اسی طرف جارہے جو کیسز زیر التوا ہیں۔
عمران خان صاحب نیب سے متعلق آپ کے بیان کے بعد کیا باقی رہ گیا، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان صاحب ان ترامیم کو کالعدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، آپ نے میرا نوٹ نہیں پڑھا شاید، نیب سے متعلق آپ کے بیان کے بعد کیا باقی رہ گیا ہے، عمران خان آپ کا نیب پر کیا اعتبار رہےگا؟ جس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میرے ساتھ 5 روز میں نیب نے جو کیا اس کے بعد کیا اعتبار ہوگا، جیل میں جا کر تو مزید میچورٹی آئی ہے، ستائیس سال قبل بھی نظام کا یہی حال تھا جس کے باعث سیاست میں آیا، غریب ملکوں کے سات ہزار ارب ڈالر باہر پڑھے ہوئے ہیں، اس کو روکنا ہوگا، دبئی لیکس میں بھی نام آچکے، پیسے ملک سے باہر جارہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عمران خان آپ کی باتیں مجھے بھی خوفزدہ کررہی ہیں، حالات اتنے خطرناک ہیں تو ساتھی سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھ کر حل کریں، جب آگ لگی ہو تو نہیں دیکھتے کہ پاک ہے ناپاک, پہلے آپ آگ تو بجھائیں۔
’بدقسمتی سے عمران خان آپ جیل میں ہیں، آپ سے لوگوں کو امیدیں ہیں‘
عمران خان نے کہا کہ بھارت میں اروند کیجریوال کو آزاد کرکے، سزا معطل کرکے انتخابات لڑنے دیاگیا، مجھے 5 دنوں میں ہی سزائیں دے کر انتخابات سے باہر کردیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تو سیاسی نظام کس نے بنانا تھا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے آپ جیل میں ہیں، آپ سے لوگوں کی امیدیں ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ میں دل سے بات کروں تو ہم سب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، پاکستان میں غظر اعلانیہ مارشل لا لگا ہواہے۔
واضح رہے کہ 30 مئی کو سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ مجھے قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے۔
اس سے گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمان کو بند کر دیں۔
سپریم کورٹ میں نیب ترمیم کیس کی سماعت کے آغاز پر سابق وزیر اعظم عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا، عمران خان نے نیلے رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی، وہ تقریباً ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت میں حاضر رہے۔
14 مئی کو سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے خلاف سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کو بذریعہ وڈیولنک پیش ہونے کی اجازت دی تھی۔
پس منظر
واضح رہے کہ گزشتہ سال 15 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دے دی تھیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کردیے جب کہ نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔
فیصلے کے مطابق صرف کیسز نہیں، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بھی بحال کردی گئی تھیں، فیصلے میں نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیے گئے کیسز بھی بحال کردیے گئے تھے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کرپشن کے ختم کیے گئے تمام مقدمات کو احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لگایا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کارروائی کرے، آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی، پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
فیصلے میں احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیے گئے تھے۔
بعد ازاں 17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کو غیر قانونی قرار دینے والی نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 15 ستمبر کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔
درخواست میں عدالت سے نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ نیب ترامیم میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔
اپیل میں فیڈریشن، نیب اور سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمانی اختیار سے متجاوز ہے۔