• KHI: Maghrib 6:15pm Isha 7:34pm
  • LHR: Maghrib 5:35pm Isha 6:58pm
  • ISB: Maghrib 5:36pm Isha 7:02pm
  • KHI: Maghrib 6:15pm Isha 7:34pm
  • LHR: Maghrib 5:35pm Isha 6:58pm
  • ISB: Maghrib 5:36pm Isha 7:02pm

سینیٹ: متنازع پیکا ترمیمی بل 2025 اور ڈیجیٹل نیشن بل 2025 منظور، صحافیوں کا واک آؤٹ

شائع January 28, 2025
شبلی فراز نے کہا کہ آج کے بعد کسی پر بھی پیکا لگا دیں — فوٹو: ڈان نیوز
شبلی فراز نے کہا کہ آج کے بعد کسی پر بھی پیکا لگا دیں — فوٹو: ڈان نیوز

سینیٹ نے متنازع پیکا ترمیمی بل 2025 اور ڈیجیٹل نیشن بل 2025 منظور کر لیے، صحافیوں نے احتجاجاً ایوان بالا سے واک آؤٹ کر دیا۔

ڈان نیوز کے مطابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر کی زیر صدارت اجلاس شروع ہوا، تو رانا تنویر حسین نے محسن نقوی کی جانب سے پیکا ترمیمی بل منظوری کے لیے پیش کیا، جسے ایوان نے کثرت رائے سے منظور کرلیا۔

دی پری ونیشن آف الیکٹرانک کرائم (ترمیمی) بل 2025 میں پیکا میں سیکشن 26(اے) کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے تحت آن لائن ’جعلی خبروں‘ کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی، اس میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے، یا کسی دوسرے شخص کو بھیجتا ہے، جس سے معاشرے میں خوف یا بےامنی پھیل سکتی ہے، تو اسے تین سال تک قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

صدر مملکت کی منظوری کے بعد یہ بل قانون بن جائے گا۔

متنازع پیکا ترمیمی بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن ارکان طیش میں آگئے، احتجاج کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں، صحافیوں نے بھی پریس گیلری سے واک آؤٹ کر دیا۔

وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین نے کہا کہ بل کا تعلق اخبار یا ٹی وی سے نہیں، صرف سوشل میڈیا کو ڈیل کرے گا، صحافیوں کا اس بل سے کوئی معاملہ نہیں، یہ بل قرآنی صحیفہ نہیں، اس میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شبلی فراز نے تقریباً اس بل کو سپورٹ کیا، اس سے پہلے قانون کو انہوں نے لولا لنگڑا کہا تھا۔

ایوان بالا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا کہ ایک قانون بننے میں وقت لگتا ہے، وزیر قانون آتے ہیں، آج ایک قانون بنا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ بس کومہ وغیرہ کی درستگی کی ضرورت ہے، فوری طور پر اسے منظور کرلیں۔

شبلی فراز نے کہا کہ صحافی آج اپنے پیشہ ورانہ امور کے حوالے سے تحفظات پر احتجاج پر مجبور ہیں، کیا حکومت نے متعلقہ شراکت داروں سے مشورہ کیا ہے؟ یہ قانون برائے اصلاح نہیں، قانون برائے سزا ہے، اور ہم اس کے لیے استعمال نہیں ہوسکتے۔

انہوں نے کہا کہ اگر سینیٹ اس قانون کو منظور کرلیتا ہے تو لوگ کہیں گے ان سب نے مل کر اسے منظور کیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، ہم نے اس بل کی مخالفت کی ہے، اس قانون کے بعد کسی پر بھی پیکا لگا دیں، حکومتی بنچز میں کسی نے اس بل کو پڑھا بھی نہیں ہوگا۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ پیکا قانون سے بوٹوں کی خوشبو آرہی ہے، اظہار رائے پر پابندی لگائی جارہی ہے، اس بل کو مسترد کرتے ہیں، میڈیا سے مشاورت نہیں کی گئی۔

دوسری جانب سینیٹ نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025 کی منظوری بھی دے دی۔ اس بل کی منظوری کی تحریک وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کی، جس کے بعد اپوزیشن کے سینیٹرز نے ایوان میں احتجاج کیا، اپوزیشن لیڈر شبلی فراز اور پی ٹی آئی سینیٹرز ڈائس کے قریب پہنچ گئے۔

اے این پی کے ایمل ولی خان نے وزیر قانون کی نشست پر پہنچ کر احتجاج کیا، شبلی فراز نے سیکریٹری سینیٹ پر برہمی کا اظہار کیا، جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے ڈیجیٹل نیشن بل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل مکمل طور پر مسترد کریں، یہ صوبوں کے امور میں مداخلت ہے۔

حکومتی ارکان نے کامران مرتضیٰ کے اعتراضات کی مخالفت کی، جس کے بعد سینیٹ نے کامران مرتضیٰ کی ترامیم مسترد کر دیں۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے فلک ناز چترالی کے رویے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کے خلاف کارروائی عمل میں لاؤں گا، یہ آخری بار ہے۔

بعد ازاں سینیٹ نے ڈیجٹل نیشن پاکستان بل 2025 کی شق وار منظوری دے دی۔

اس سے پہلے سینیٹ میں وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر ہاؤسنگ اینڈ ورکس ریاض حسین پیرزادہ نے ارکان کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم خود ہاؤسنگ اینڈ ورکس سیکٹر کو لیڈ کر رہے ہیں، ہمارے کچھ پروجیکٹس پر کام جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال کے آخر تک ہمارے محکمے میں آپ کو کارکردگی نظر آئے گی۔

وزیر دفاع اور ہوا بازی خواجہ آصف نے وقفہ سوالات میں ارکان کے سوالات کے جواب دیتے کرتے ہوئے کہا کہ چترال کا ایئرپورٹ فعال ہے، پی آئی اے کے حالات قوم کے سامنے رہے ہیں، پی آئی اے اب بحال ہورہی ہے، اب چھوٹے ایئرپورٹس پر رونقیں لگیں گی، جہاز آنا جانا شروع ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں چترال اور شمالی علاقہ جات میں فلائٹس شروع کی جائیں گی، نئے جہاز بھی لینے کی کوشش کر رہے ہیں، ایئر لائنز نے درخواستیں دی ہیں وہ چھوٹے ایئرپورٹس پر آپریٹ کریں گی۔

سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ پاکستان ایٹمی ملک ہے اور 3 اےٹی آرز طیارے ہیں، ایک بند ہے، اور اس کے پرزے نہیں مل رہے، پی آئی اے نہیں چل رہا تو مفت دے دیں تاکہ اے ٹی آرز مل جائیں۔

انہوں نے کہا کہ فلائٹ آپریشن کب شروع ہوگا، کوئی ٹائم فریم دیں۔

وزیر دفاع و ہوا بازی نے کہا کہ پی آئی اے کے روٹس کھل رہے ہیں، برطانوی ٹیم آئی ہوئی ہے وہ روٹ بھی کھل جائے گا، پی آئی اے کی نجکاری کی ایک کوشش ناکام ہوچکی ہے دوسری کی جارہی ہے، ابھی ان معاملات کو بہتر کرنے کے لیے کچھ وقت چاہیے۔

سینیٹ میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے امتناع اسمگلنگ تارکین وطن ترمیمی بل 2025 پیش کیا گیا، جسے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔

ایوان بالا میں امتناع ٹریفکنگ پرسنز ترمیمی بل 2025 بھی پیش کیا گیا، جسے مزید غور کے لیے قائمہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا۔

اپوزیشن لیڈر سینیٹ شبلی فراز نے کہا کہ یہ مدت گزر جائے گی، لیکن کیا اقدار سیٹ کر رہے ہیں، یہ سب یاد رہے گا، ایک ایک اینٹ ہماری نکالی جارہی ہے، آپ اس کے سہولت کار ہیں۔ ڈپٹی چیئرمین نے ’سہولت کار‘ کا لفظ کاروائی سے نکلوا دیا۔

شبلی فراز نے کہا کہ اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈرز پر عمل نہیں کیا گیا، قانون سازی اس ایوان کا کام ہے۔

اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے سینیٹ میں دی امیگریشن آرڈیننس ترمیمی بل 2025 پیش کیا گیا، جسے قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔

سینیٹر فیصل واڈا نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے فیلڈ افسران کے لیے 1010 گاڑیوں کی خریداری پر توجہ دلاؤ نوٹس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر کا سالانہ ہدف 384 ارب پورا نہیں ہوسکا، ان گاڑیوں کی پروکیورمنٹ میں شفافیت نہیں، اب تک کسی اخبار میں کوئی اشتہار نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی پر الزام لگایا گیا کہ ہم اثر انداز ہو رہے ہیں، چوری، غنڈہ گردی، بدمعاشی اس ملک کا وطیرہ بن چکا ہے، وزیر دفاع اس کا دفاع کر رہے ہیں، معلوم نہیں دفاع خزانہ میں ہے یا خزانہ دفاع میں ہے؟

فیصل واڈا نے کہا کہ ہم فیورٹ ازم کو نہیں چلنے دیں گے، گریڈ 20 سے اوپر کے افسران کو گاڑیاں مل سکتی ہیں، گریڈ 16 سے اوپر کے افسران کو گاڑیاں دی جارہی ہیں، 190 ملین پاؤنڈ بھی کابینہ نے منظور کیے تو جیل دیکھ لی، اس میں بھی جیل دیکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کو ہر ماہ 4 تنخواہیں دی جائیں گی، کیا ایف بی آر نے اپنے اہداف پورے کیے؟ ہم رینٹ اے کار سے گاڑی کیوں نہیں لیتے؟ اتنا فیول لگے کا اس کا کھاتا نہیں، صرف ہونڈا اور ٹویوٹا سے گاڑیاں لی جا رہی ہیں۔

سینیٹ میں آزاد رکن نے کہا کہ اپوزیشن کا کام تھا لیکن وہ کام کر ہی نہیں رہی، 22 جنوری کو خزانہ کمیٹی ٹیک اپ کرتی ہے، غیر ملکی کمپنیوں پر چھاپے مارے گئے، گاڑیاں خریدیں لیکن معیاری اور اچھی لیں، شاید اوپر سے حکم آگیا ہے، یہاں سے لینی ہیں، خوش کرنے کے لیے گاڑیاں خریدی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مخصوص کمپنیوں کو فیور دی جارہی ہے، مافیا کے خلاف آواز اٹھائیں تو مقدمہ بنا دیتے ہیں، فائلیں کھل جاتی ہیں، رانا ثنا اللہ پر جھوٹا و گھٹیا مقدمہ بنایا گیا تو کھڑا ہوگیا، وزیر دفاع کہتے ہیں کمیٹی اثر انداز ہوئی ہے، چوری ٹھیک کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، اثر انداز ہوئے اور آئندہ بھی ایسا کریں گے۔

سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ گاڑیوں کا کنٹریکٹ 2 سے 4 ارب روپے کا ہے، 10 سے 20 کروڑ روپے کا ایشو ہوگا، جو ہمارے کور ایشوز ہیں ان پر بات کریں، کیپسٹی پیمنٹس 2300 ارب تک پہنچی ہوئی ہیں، کسٹم ہاؤس میں کہا گیا 15 ارب کی سالانہ چوری ہوتی ہے، ساڑھے 8 ہزار قرضہ اس سال لینا ہے۔

فیصل واڈا نے کہا کہ ایف بی آر کی گاڑیوں کا معاملہ 10 ارب روپے کا ہے، بدقسمتی ہے کروڑوں کی چوری یا کرپشن کو ایشو نہیں سمجھا جاتا، شفافیت کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔

وزیر قانون و پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے فیصل واڈا کے توجہ دلاؤ نوٹس پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیلڈ اسٹاف کے لیے گاڑیاں ہیں، جو گریڈ 17 اور 18 کے لیے ہیں، ان گاڑیوں پر ٹریکر لگائے جائیں گے، یہ گاڑیاں سیلز ٹیکس حکام سے متعلق ہیں، دنیا بھر میں ٹیکس کلیکٹر شعبہ وصولی کا 5 فیصد شعبے پر خرچ کرتے ہیں، پاکستان میں یہ خرچ تنخواہوں سمیت ایک فیصد سے کم ہے، وزیر اعظم نے بھی کئی اجلاسوں کے بعد منظوری دی ہے۔

وزیر قانون نے مزید کہا کہ ایف بی آر نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس سے ٹیکس ہدف حاصل کیا جائے گا، ایف بی آر اپنے لیے مختص بجٹ میں سے گاڑیاں خریدے گا، یہ گاڑیاں ایف بی آر فیلڈ اسٹاف کی کیپسٹی بہتر کرنے کے لیے لی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب فیلڈ اسٹاف مینوفیکچرنگ کو خود دیکھیں گے، گاڑیوں کی خریداری سے افسران کی کارکردگی بہتر ہوگی، جس سے 3 ہزار ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 30 جنوری 2025
کارٹون : 29 جنوری 2025