طورخم سرحد پر پاک افغان فورسز میں فائرنگ، گولا باری، فوجیوں سمیت 8 افراد زخمی
طورخم سرحد پر پاکستان اور افغان طالبان فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں 6 فوجیوں سمیت کم از کم 8 افراد معمولی زخمی ہو گئے، فائرنگ کے بعد شہری اپنی جان بچانے کے لیے گھر بار چھوڑنے پر مجبور دکھائی دیے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ فائرنگ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کو شروع ہوئی جس میں دونوں فریقین نے ابتدائی طور پر ہلکے ہتھیاروں کا استعمال کیا اور بعد میں بھاری ہتھیاروں کا سہارا لیا، جس سے علاقے میں متعدد عمارتوں کو نقصان پہنچا۔
کئی سرکاری اور نجی عمارتوں کو رات بھر گولیوں اور مارٹر گولوں کا نشانہ بنایا گیا، صبح 11 بجے کے قریب توپیں خاموش ہو گئیں لیکن سرحد پر حالات کشیدہ رہے اور دونوں اطراف کے فوجی موجود رہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے افغان وزارت داخلہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ فائرنگ کے نتیجے میں ایک طالبان جنگجو ہلاک اور دو زخمی ہوئے ہیں۔
علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا
توپ خانے کی فائرنگ کے ساتھ شدید فائرنگ سے باچا مینا رہائشی کمپاؤنڈ (تقریباً 100 گھروں کی ایک برادری) کے رہائشیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، جنہیں آدھی رات کو اپنے گھروں سے بھاگنا پڑا۔
ایک رہائشی صابر خان نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ انہیں گولیوں اور بارش سے بچنے کے لیے برطانوی دور کی ریلوے سرنگوں میں پناہ لینی پڑی، وہ صبح سویرے لنڈی کوتل کے محفوظ علاقوں میں چلے گئے، فرار ہونے والے زیادہ تر رہائشی افراتفری کی وجہ سے اپنی سحری بھی نہیں کر سکے۔
ایک اور رہائشی خیلی شاہ نے بتایا کہ متعدد گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں، کیونکہ رہائشی شدید فائرنگ کے درمیان علاقہ چھوڑنے کے لیے جلد بازی میں تھے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ متعدد مکانات کو گولیوں اور مارٹر گولوں سے بھی نشانہ بنایا گیا، جس سے مٹی کے ڈھانچے کو معمولی نقصان پہنچا، گھر بار چھوڑ کر جانے والے 2 افراد مارٹر گولوں سے زخمی بھی ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک ٹیکسی ڈرائیور شدید فائرنگ کے درمیان محفوظ مقام پر جا رہا تھا کہ دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوگیا۔
دریں اثنا، خیبر کے مختلف قبائل کے قبائلی عمائدین نے موجودہ سرحدی مسائل کے پائیدار حل کے لیے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ثالثی کی پیشکش کر دی ہے۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے ملک عبدالرزاق آفریدی نے کہا کہ سرحد کے دونوں اطراف کے قبائلی عمائدین حساسیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور انہیں اس طرح کے مسائل کو حل کرنے کا تجربہ ہے، بشرطیکہ وہ ایسا کرنے کے لیے مکمل طور پر بااختیار ہوں۔
سرحدی سیکیورٹی حکام کے درمیان دونوں اطراف کے موجودہ سرحدی ڈھانچے میں ترمیم اور تزئین و آرائش پر اختلافات کے بعد طورخم کراسنگ کو 21 فروری کی رات کو اچانک بند کردیا گیا تھا۔
سرحد کی بندش سے ہر قسم کی سرحد پار نقل و حرکت مکمل طور پر رک گئی اور دونوں فریقین نے اگلے 2 دن تک ایک دوسرے سے بات چیت کرنے نہیں کی۔
سیکیورٹی حکام نے بندش کے تیسرے روز اپنی پہلی میٹنگ کی لیکن کسی معاہدے پر نہیں پہنچ سکے، انہوں نے 2 مارچ کو دوبارہ ملاقات کی لیکن اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے۔
تاہم حکام اور تاجروں کو امید تھی کہ رواں ہفتے کے دوران کسی بھی دن سرحد کو دوبارہ کھولا جا سکتا ہے، کیونکہ پاکستانی حکام نے افغانستان کی جانب سے سرحد کی تنظیم نو کے پروٹوکول پر عمل کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ تجارت اور پیدل چلنے والوں کی نقل و حرکت دوبارہ شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔