بنوں چھاؤنی پر حملے میں 11 شہری بھی جاں بحق، متعدد مکانات اور مسجد منہدم
دہشت گردوں کی جانب سے دھماکا خیز مواد سے بھری 2 گاڑیاں بنوں چھاؤنی کے احاطے میں ہائی سیکیورٹی زون میں داخل کرنے کی کوشش کو فورسز نے ناکام بنا دیا، دہشت گردوں نے بارود بھری گاڑیاں دھماکے سے اڑادیں جس کے نتیجے میں 5 خواتین اور 4 بچوں سمیت کم از کم 11 افراد جاں بحق اور 22 زخمی ہوگئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بنوں کینٹ تھانے کی حدود میں فائرنگ کے تبادلے میں 6 حملہ آور بھی مارے گئے۔
عسکریت پسندوں نے چھاؤنی کے علاقے کے داخلی دروازے پر تعینات سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے گاڑیوں کو روکنے کے بعد گیٹ پر موجود گاڑیوں کو دھماکے سے اڑا دیا۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ دھماکوں کے بعد نامعلوم تعداد میں عسکریت پسند کیمپ میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے جس کے نتیجے میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا، یہ حملہ افطار کے چند منٹ بعد شام ساڑھے 6 بجے شروع ہوا، حملے کے دوران عسکریت پسندوں نے آر پی جی اور دستی بم فائر کیے، اضافی دستوں اور ایس ایس جی کمانڈوز کو علاقے میں بھیجا گیا۔
ذرائع نے جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کی بھی تصدیق کی جن میں 10 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں، زخمیوں کو ڈی ایچ کیو اور کے جی این ہسپتال بنوں منتقل کردیا گیا جبکہ زخمی اہلکاروں کو سی ایم ایچ منتقل کیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ چھاؤنی کے مختلف داخلی راستوں پر سیکیورٹی فورسز نے 6 عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا، باقی حملہ آوروں کو سیکیورٹی فورسز نے گھیر لیا تھا۔
ذرائع کے مطابق کالعدم حافظ گل بہادر گروپ کے ایک دھڑے جیش فرقان محمد نے سوشل میڈیا پر حملے کی ذمہ داری قبول کی، تاہم اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکی۔
دھماکوں کی شدت سے مکانات منہدم
دھماکوں کی شدت کے باعث آس پاس کے کئی گھروں کی چھتیں اور دیواریں منہدم ہوگئیں جس کے نتیجے میں ایک درجن سے زائد افراد ملبے تلے دب گئے، چھاؤنی کے داخلی دروازے سے متصل مسجد بھی منہدم ہوگئی، متعدد نمازی مبینہ طور پر ملبے تلے دب گئے، ملبے سے انہیں نکالنے کے لیے امدادی کارروائیاں جاری رہیں۔
ایک ریسکیو افسر نے بتایا کہ ریسکیو آپریشن شروع کرنے کے لیے ایمبولینسز کے ساتھ میڈیکل ٹیموں کو علاقے میں بھیج دیا گیا تھا، لوگ تباہ شدہ گھروں اور ایک مسجد کے ملبے تلے دبے ہوئے تھے اور امدادی کارکن انہیں باہر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ہلاکتوں کی مجموعی تعداد کی ابھی تک تصدیق نہیں کی جا سکی، کیونکہ ہسپتالوں سے اب تک 9 افراد کی ہلاکت اور 22 زخمیوں کی اطلاع ملی ہے، تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے اور ڈاکٹروں اور پیرا میڈکس کو ڈیوٹی پر بلا لیا گیا ہے۔
بنوں میں گزشتہ کئی ماہ کے دوران عسکریت پسندوں کے متعدد حملے رپورٹ ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس 14 اکتوبر کو اقبال شہید پولیس لائنز پر فائرنگ اور بم حملے کو ناکام بنانے کی کوشش میں برقع اور خودکش جیکٹوں میں ملبوس 5 عسکریت پسند ہلاک ہوگئے تھے۔
گزشتہ سال 20 نومبر کو ضلع کے علاقے مالی خیل میں سیکیورٹی چیک پوسٹ پر خودکش حملے میں 12 فوجی شہید ہوگئے تھے۔ رواں سال 8 فروری کو ضلع کے علاقے فتح خیل میں ایک پولیس چوکی پر دہشت گردوں کے حملے میں دو پولیس اہلکار شہید ہوگئے تھے۔
وزیراعظم کا اظہار افسوس
ایک بیان میں وزیر اعظم شہباز شریف نے سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا اور واقعے میں معصوم شہریوں کی شہادت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے شہدا کے درجات کی بلندی اور ان کے اہل خانہ کے لیے صبر جمیل اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ رمضان کے مقدس مہینے میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے والے بزدل دہشت گرد کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں، کالعدم تحریک طالبان پاکستان مادر وطن کی دشمن ہے اور اس کے ناپاک عزائم کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
دوسری جانب حکومت خیبر پختونخوا کے ترجمان بیرسٹر سیف نے کہا کہ تمام حملہ آوروں کو سیکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا ہے، دھماکوں کے نتیجے میں قریبی مسجد کی چھت گر گئی تھی جس کے نتیجے میں نمازی شہید ہوئے، ہلاک شدگان کی مجموعی تعداد کا تعین کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے واقعے کی تحقیقات کی ہدایات جاری کی ہیں، صوبائی حکومت لواحقین اور شہدا کے غم میں برابر کی شریک ہے۔