• KHI: Maghrib 6:37pm Isha 7:53pm
  • LHR: Maghrib 6:04pm Isha 7:25pm
  • ISB: Maghrib 6:08pm Isha 7:31pm
  • KHI: Maghrib 6:37pm Isha 7:53pm
  • LHR: Maghrib 6:04pm Isha 7:25pm
  • ISB: Maghrib 6:08pm Isha 7:31pm

بھارتی مسلمانوں کو ’پاکستانی‘ کہنا گالی نہیں، انڈین سپریم کورٹ کا فیصلہ

شائع March 5, 2025
سیشن کورٹ اور ہائیکورٹ نے مجسٹریٹ کے حکم کو چیلنج کرنے والے سنگھ کی اپیل کو خارج کردیا تھا — فائل فوٹو: بشکریہ ہندوستان ٹائمز
سیشن کورٹ اور ہائیکورٹ نے مجسٹریٹ کے حکم کو چیلنج کرنے والے سنگھ کی اپیل کو خارج کردیا تھا — فائل فوٹو: بشکریہ ہندوستان ٹائمز

بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ کسی کو ’پاکستانی‘ کہنا گالی یا کوئی جرم نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس عمل کو عام طور پر بھارتی مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے کے لیے گالی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، مسلمانوں کو کم محب الوطن ہونے کا طعنہ دینے کے لیے اکثر ’پاکستانی‘ ہونے کا طنز کیا جاتا ہے، جس سے انہیں تکلیف پہنچتی ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ گو کہ یہ عمل گالی یا جرم نہیں لیکن یہ کہنا بھی ’اچھی بات نہیں‘ ہے۔

دیکھا جائے تو بھارتی عدالت ٹھیک ہی کہتی ہے، ہندو دائیں بازو کے لیے کسی کو ’پاکستانی‘ کہنے کا مطلب ہے کہ وہ سچے محب وطن نہیں اور راہول گاندھی کو پاکستانی کہا گیا، لہٰذا سختی سے کہا جائے تو یہ کوئی مذہبی تضحیک نہیں، لیکن پھر بھی یہ نفرت انگیز تقاریر کے مترادف ہے، تاہم بھارتی سپریم کورٹ ایسا نہیں سمجھتی۔

بھارتی سپریم کورٹ نے فراخدلی سے کہا کہ یہ ریمارکس ’ناقص‘ تھے، چنانچہ بینچ نے ایک سرکاری ملازم کے خلاف ’پاکستانی‘ اور ’میاں تیان‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کے ملزم کے خلاف کیس بند کرنے کا حکم جاری کر دیا، اس فیصلے سے ’گالیوں‘ کے سیلاب کا خطرہ ہے، جو میں اچھا نہیں ہوگا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے ’ناقص الفاظ‘ اور نفرت انگیز تقاریر کے درمیان غیر ضروری حد کھینچی ہے۔

جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس ستیش چندر شرما کے بینچ نے سرکاری ملازم کے خلاف بات کرنے والے ملزم کے کیس کو بند کرتے ہوئے یہ ریمارکس دیے تھے۔

شکایت کنندہ ضلع جھارکھنڈ کے چاس میں واقع سب ڈویژنل دفتر میں رائٹ ٹو انفارمیشن کے لیے اردو مترجم اور قائم مقام کلرک تھا۔

اس معاملے میں ملزم ہری نندن سنگھ نے ایڈیشنل کلکٹر سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت معلومات مانگی تھیں۔

اپیلیٹ اتھارٹی نے شکایت کنندہ (ایک مسلمان) کو ہدایت کی تھی کہ وہ سنگھ کو آر ٹی آئی کے تحت مانگی گئی معلومات ذاتی طور پر فراہم کرے۔

شکایت کنندہ کے مطابق جب وہ معلومات دینے سنگھ کے گھر گیا تو ہری نندن سنگھ نے مبینہ طور پر اس کے مذہب کا حوالہ دے کر اس کے ساتھ بدسلوکی کی۔

عدالتی حکم کے مطابق سنگھ نے مبینہ طور پر اپنے سرکاری فرائض کی انجام دہی کے دوران ان کے خلاف مجرمانہ طاقت کا استعمال کیا، جس کا مقصد انہیں ڈرانا دھمکانا اور سرکاری ملازم کے طور پر اپنے فرائض کی انجام دہی سے روکنا تھا۔

ہری نندن سنگھ کے خلاف مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے (دفعہ 298)، امن کی خلاف ورزی کے ارادے سے توہین (504)، مجرمانہ دھمکی (506)، سرکاری ملازم کو ڈیوٹی کی انجام دہی سے روکنے کے لیے حملہ یا مجرمانہ طاقت (353) اور رضاکارانہ طور پر نقصان پہنچانے (323) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

چارج شیٹ داخل ہونے کے بعد سنگھ نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 239 کے تحت بریت کے لیے درخواست دائر کی، یہ دفعہ مجسٹریٹس کو بے بنیاد سمجھے جانے والے الزامات پر ملزمان کو بری کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

مارچ 2022 میں مجسٹریٹ نے فیصلہ سنایا کہ ہری نندن سنگھ کے خلاف الزام طے کرنے کے لیے ریکارڈ پر مواد دستیاب ہے، حالانکہ ہری سنگھ کو مجسٹریٹ نے ثبوتوں کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے مجرمانہ دھمکی دینے اور رضاکارانہ طور پر نقصان پہنچانے کے الزام سے بری کر دیا تھا۔

سیشن کورٹ اور راجستھان ہائی کورٹ نے مجسٹریٹ کے حکم کو چیلنج کرنے والے ہری نندن سنگھ کے فیصلے کو خارج کردیا تھا۔

سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ چونکہ کوئی حملہ نہیں ہوا تھا لہٰذا ہائی کورٹ کو دفعہ 353 کے تحت اپیل کنندہ کو بری کر دینا چاہیے تھا، عدالت نے کہا کہ درخواست گزار پر دفعہ 504 کے تحت بھی فرد جرم عائد نہیں کی جا سکتی، کیونکہ اس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے امن کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔

نتیجتاً اس معاملے میں ملزم شخص کو تمام الزامات سے بری کر دیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 6 مارچ 2025
کارٹون : 5 مارچ 2025