ارمغان سے منشیات کے منظم کاروبار کی تفتیش کا فیصلہ، منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع
محکمہ ایکسائز سندھ کے نارکوٹکس کنٹرول ونگ نے آرگنائزڈ منشیات کے کاروبار کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیر ایکسائز سندھ مکیش کمار چاؤلہ نے کہا ہے کہ محکمہ ایکسائز سندھ کی 5 رکنی کمیٹی ڈیفنس میں قتل کیے گئے نوجوان مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے منشیات کے کاروبار کی تحقیقات کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ایکسائز کی ٹیم ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں ارمغان سمیت دیگر نوجوانوں کے منشیات کے کاروبار کی بھی تحقیقات کرے گی۔
صوبائی وزیر ایکسائز نے کہا کہ محکمہ ایکسائز سندھ کی ٹیم ملزم ارمغان سے منشیات کیس کے ہر پہلو پر تفتیش کرے گی، دیکھا جائے گا کہ اس گھناؤنے کاروبار کو کس طرح چلایا جارہا تھا، اور کون کون اس میں ملوث رہا، تفتیش کے نتائج کی روشنی میں ملزمان کیخلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
ایف آئی اے ٹیم ارمغان کے گھر پہنچ گئی
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ٹیم کراچی میں مصطفیٰ عامر قتل کیس میں گرفتار ملزم ارمغان کے ڈیفنس میں واقع گھر پہنچ گئی۔
ڈان نیوز کے مطابق ایف آئی اے نے منی لانڈرنگ، غیر قانونی کال سینٹرز کی تحقیقات شروع کردی ہیں، قتل کی تفتیش کے دوران انکشاف ہوا تھا کہ ملزم مبینہ طور پر منی لانڈرنگ اور غیر قانونی طور پر کال سینٹر چلانے میں بھی ملوث ہے۔
ایف آئی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی ٹیم مصطفیٰ قتل کیس کے ملزم ارمغان کے گھر گئی تھی، اور منی لانڈرنگ سمیت غیر قانونی کال سینٹرز کے حوالے سے دستیاب شواہد تلاش کرنے کی کوشش کی۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔
بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔
ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔
بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔
دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔