ریاستی اداروں کے آڈٹس میں تاخیر پر آئی ایم ایف کو تشویش ہے، آڈیٹر جنرل آف پاکستان
آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) اجمل گوندل نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں بتایا کہ ریاستی اداروں کے آڈٹ کے عمل میں تاخیر پر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو تشویش ہے۔
واضح رہے کہ یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے پہلے جائزے کے حوالے سے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں۔
آج اجلاس سے بات کرتے ہوئے اجمل گوندل نے انکشاف کیا کہ آئی ایم ایف نے تقریباً 6 لاکھ زیر التوا آڈٹ کیسز پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ آڈٹ کیسز کے معاملات کو جلد حل کیا جائے، مزید کہا کہ وزارتوں اور اداروں سے متعلق آڈٹ کے تقریباً 5 سے 6 لاکھ زیر التواکیسز ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کے احکامات کے باوجود کوئی چیف انٹرنل اکاؤنٹنٹ تعینات نہیں کیا گیا، قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے مالیاتی آڈٹ کا نظام خراب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اداروں کے سیکریٹریز اور چیف فنانشل افسران آڈٹس کو کلیئر نہیں کر رہے ہیں، 15 اداروں میں صرف چیف فنانشل افسران ہیں، اور ان اداروں میں چیف انٹرنل اکاؤنٹنٹ نہیں ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اداروں میں اندرونی آڈٹ کا کوئی نظام نہیں ہے۔
اے جی پی نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پاس زیر التوا آڈٹ کیسز کی تعداد بڑھ کر 30 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔
پی اے سی نے وزارتوں اور اداروں سے ایک ماہ میں تفصیلات طلب کر لیں۔
واضح رہے کہ آج ڈان اخبار نے رپورٹ کیا تھا کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی قسط حاصل کرنے سے پہلے حکومت کو ترقیاتی اخراجات کم کرکے رواں مالی سال کی آخری سہ ماہی میں ریونیو اقدامات اور سخت مالیاتی امتزاج نافذ کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یکم اپریل سے نافذ العمل ہونے والے نئے مالی اقدامات میں 3 جہتی نقطہ نظر شامل ہوسکتا ہے، جس میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) پر سخت کنٹرول، ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ کے شعبوں سے محصولات کی وصولی میں اضافہ، سال کی پہلی ششماہی اور اس کے بعد کے مہینوں میں محصولات کی کمی کو پورا کرنے کے لیے گزشتہ سال 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت ہنگامی اقدامات کو فعال کیا جائے گا۔