جعفر ایکسپریس حملہ: فورسز کا دوسرے روز جاری آپریشن مکمل، مسافر بازیاب، تمام دہشتگرد ہلاک
بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد دوسرے روز جاری سیکیورٹی فورسز کا آپریشن ختم ہو چکا، بڑی تعداد میں مسافروں کو بازیاب کرا لیا گیا جبکہ تمام دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری ہے، اب تک سیکیورٹی فورسز نے بڑی تعداد میں مسافروں کو دہشت گردوں سے باحفاظت بازیاب کروا لیا، جبکہ تمام دہشت گرد مارے جا چکے ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق جعفر ایکسپریس پر بزدلانہ حملے کے دہشت گرد افغانستان میں اپنے سہولت کاروں سے رابطے میں ہیں، دہشت گردوں نے خودکش بمبار دہشت گردوں کو کچھ معصوم یرغمالی مسافروں کے بالکل پاس بٹھایا ہوا ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق ممکنہ شکست کے پیش نظر دہشت گرد خودکش بمبار معصوم لوگوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق خودکش بمباروں نے عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنایا ہوا ہے، خودکش بمبار 3 مختلف مقامات پر عورتوں اور بچوں کو یرغمال بناکر ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، عورتوں، بچوں کی خودکُش بمباروں کے ساتھ موجودگی پر آپریشن میں انتہائی احتیاط کی جارہی ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق 37 زخمیوں کو طبی امداد کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے جبکہ 190 مسافروں کو دہشت گردوں سے بازیاب کروا لیا گیا ہے اور اب تک 30 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جا چکا ہے، باقی ماندہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے سیکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے۔
دریں اثنا، سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ آپریشن آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے، بڑی تعداد میں یرغمال مسافروں کو بازیاب کروا لیا گیا۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ آپریشن کے دوران انتہائی احتیاط اور مہارت کا مظاہرہ کیا گیا، آپریشن کے دوران انسانی جانیں بچانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔
مزید بتایا کہ شہید مسافروں کی تعداد کا تعین کیا جا رہا ہے، موقع پر موجود تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا، مزید تفصیلات کچھ دیر میں مطلع کر دی جائیں گی۔
دریں اثنا، ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق منگل کو دہشت گردوں نے بلوچستان کے ایک دشوار گزار علاقے میں جعفر ایکسپریس پر حملہ کیا اور 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا، جن میں ایک بڑی تعداد سیکیورٹی اہلکاروں کی بھی شامل تھی۔
اگرچہ دور دراز علاقے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا تھا، سیکیورٹی فورسز نے بتایا تھا کہ انہوں نے ڈھاڈر کے علاقے میں بولان پاس میں یرغمالیوں کو بچانے کے لیے ایک بڑے آپریشن کا کیا تھا، جس میں گزشتہ رات تک کم از کم 16 حملہ آور ہلاک کیے جاچکے تھے۔
ٹرین ڈرائیور اور 8 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 10 افراد جاں بحق
حملے میں جاں بحق افراد کی کل تعداد کی تصدیق نہیں ہوئی، لیکن حکام نے کہا ہے کہ اس حملے میں کم از کم 10 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔
کوئٹہ میں ریلوے کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ (ڈی ایس) عمران حیات کے مطابق حملے میں انجن کے ڈرائیور اور 8 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 10 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔
سیکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے خواتین اور بچوں سمیت 100 سے زائد مسافروں کو حملہ آوروں سے بچایا ہے، جنہوں نے یرغمالیوں کو بولان رینج کے خطرناک پہاڑوں میں لے گئے تھے۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا تھا کہ آیا ان افراد کو فوجی کارروائی میں بازیاب کروایا گیا تھا یا وہ ان افراد میں شامل تھے جنہیں مبینہ طور پر مسلح حملہ آوروں نے رہا کیا تھا۔
مشکاف ٹنل کے آس پاس کے علاقے میں باقی لاپتا مسافروں کی بازیابی اور حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے آپریشن جاری ہے، کارروائی کی حساس نوعیت کی وجہ سے ڈان صورتحال کے حل ہونے تک کسی بھی اہم آپریشنل تفصیلات کی اطلاع نہیں دے گا۔
ہائی جیکنگ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کیونکہ دہشت گردوں نے اس سے قبل کبھی بھی پوری ٹرین اور اس میں سوار افراد پر حملہ کرنے یا اس میں سوار افراد کو یرغمال بنانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی
گزشتہ روز کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور بڑی تعداد میں لوگوں کو یرغمال بنانے کا دعویٰ کیا تھا، دہشت گرد تنظیم نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انہوں نے خواتین اور بچوں سمیت متعدد افراد کو رہا کیا ہے لیکن ان رپورٹس کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکی۔
ریلوے حکام نے ڈان کو بتایا کہ ٹرین صبح 9 بجے کوئٹہ سے پشاور کے لیے روانہ ہوئی تھی جس میں 9 بوگیوں میں 450 مسافر سوار تھے، دوپہر ایک بجے کے قریب انہیں اطلاع ملی کہ مشکاف کے قریب واقع ریلوے ٹنل نمبر 8 کے قریب پنیر اور پیشی ریلوے اسٹیشنز کے درمیان ٹرین پر حملہ کیا گیا ہے۔
مسلح افراد نے انجن پر راکٹ فائر کیے اور فائرنگ کی جس کی وجہ سے ٹرین رک گئی۔ حکام کا کہنا تھا کہ انجن کا ڈرائیور شدید زخمی ہوا تھا جبکہ سیکیورٹی اہلکاروں اور حملہ آوروں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔
اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں نے متعدد سیکیورٹی اہلکاروں کو شہید کیا اور ٹرین کو ہائی جیک کیا، اس کے بعد انہوں نے مسافروں کی شناخت کا عمل شروع کیا اور فرار ہونے سے پہلے کچھ مسافروں کو یرغمال بنا لیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خودکار ہتھیاروں اور راکٹ لانچرز سے مسلح حملہ آوروں کا ایک بڑا گروپ پہاڑوں میں پناہ لیے ہوئے ہے، انہوں نے دھماکا خیز مواد سے ریلوے لائن کو بھی نقصان پہنچایا۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کی وجہ سے دہشت گرد چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ گئے، زخمی مسافروں کو قریبی ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے جبکہ علاقے میں آپریشن میں اضافی سیکیورٹی اسکواڈ حصہ لے رہے ہیں۔
سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی قید میں یرغمالیوں کی موجودگی کے باعث اضافی احتیاط کے ساتھ ریسکیو آپریشن جاری ہے۔
سیکیورٹی فورسز نے جن 104 مسافروں کو بازیاب کرایا تھا انہیں قریبی پنیر ریلوے اسٹیشن منتقل کردیا گیا جن میں 58 مرد، 31 خواتین اور 15 بچے شامل ہیں۔ ایک امدادی ٹرین نے انہیں قریبی مچھ اسٹیشن پہنچایا ہے جبکہ باقی مسافروں کی بحفاظت بازیابی کی کوششیں جاری ہیں۔
ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ جعفر ایکسپریس میں سفر کرنے کے لیے 750 مسافروں کی بکنگ کی گئی تھی لیکن ٹرین 450 افراد کو لے کر کوئٹہ سے روانہ ہوئی، ذرائع نے بتایا کہ اسی ٹرین میں 200 سے زیادہ سیکیورٹی اہلکار بھی سفر کر رہے تھے۔
شہباز شریف سے وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا رابطہ
ادھر، وزیراعظم شہباز شریف سے وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا رابطہ ہوا۔
وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی نے جعفر ایکسپریس واقعے پر وزیراعظم کو بریفنگ دی، وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پوری قوم اس بزدلانہ حملے اور معصوم جانوں کے ضیاع پر صدمے میں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس قسم کے بزدلانہ حملے پاکستان کے امن کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے، شہباز شریف نے شہداء کے خاندانوں سے اظہار افسوس کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ درجنوں دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا ہے۔
کیا کریں؟ 500 لوگ بھی ہمارے قتل کریں اور ہم جا کر معافیاں مانگیں؟ وزیر اعلیٰ بلوچستان
ادھر، وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ کاش آج مجھے یہ شور و غل اور زیادہ سنائی دیتا، ان لوگوں کا نام لے کر کہ بشیر زیب ہو، چاہے وہ اللہ نظر ہو، چاہے وہ براہمداغ بگٹی ہو، چاہے وہ ہربیار مری ہو، کون ہے جو قتل و غارت کر رہا ہے؟
بلوچستان اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کیوں ہم نام لیتے ہوئے گھبراتے ہیں؟ کیا ان کو بار بار ریاست نے موقع نہیں دیا، ریاست نے بار بار ماں کا کردار ادا کیا۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ کیا نواب خیر بخش مری کے ساتھ ڈائیلاگ کرکے ان کو واپس نہیں لایا گیا، کیا انہوں نے آتے ساتھ پہلے دن ایئر پورٹ پر پاکستان کا جھنڈا نہیں جلایا؟ کیا یہ سب تاریخ کا حصہ نہیں ہے کہ بالاج مری کو لندن سے واپس لایا گیا؟
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اس ریاست نے بار بار یہ کام نہیں کیا ہے؟ تو اب کیا کریں ؟ 500 لوگ بھی ہمارے قتل کریں اور ہم جا کر معافیاں مانگیں؟ میں اس معافی مانگنے کے لیے بھی تیار ہوں لیکن کیا وہ آپ کی معافی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟
وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ اس فلور سے پچھلے دس سال سے کہتے آرہے ہیں، ہم معافی مانگتے ہیں، افسوس ہوتا ہے کہ دودا خان کا بیٹا بھی بشیر زیب کو بشیر زیب صاحب کہہ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس لڑائی کو سمجھنے کے ضرورت ہے، بی ایل اے کوئی جرگہ کرے تو کیا میں ان کے ساتھ جا کر جرگہ کروں؟ کوئی اسکول سسٹم چلا رہے ہیں کہ میں جا کر کہوں کہ یہ اسکول سسٹم ٹھیک نہیں ہے، میں آکر آپ کا سسٹم ٹھیک کرتا ہوں، وہ بندوق کے زور پر اپنا نظریہ مسلط کرنا چاہتی ہے۔
سرفراز بگٹی نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم تشدد کی اجازت دے دیں؟ کیا اس کی اجازت دے دیں کہ معصوم لوگوں کو بسوں سے اتار کر مارنا شروع کردیں، چن چن کر بلوچوں کو مارا جارہا ہے، مخبری کے نام پر نائیوں، دھوبیوںکو مارا جارہاہے، جناب اسپیکر، یہ کونسی بلوچ روایات ہیں؟ تاریخ میں کیا لکھا جائے گا ؟ کہ بلوچوں نے نہتے، نائیوں، دھوبیوں، ٹیچرز، ڈاکٹرز کا قتل عام کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اور پھر یہ ٹرین حملہ، جو فوجی چھٹی پر گھر جا رہا ہے، وہ نہتا تصور ہوگا، جنگ کے بھی کوئی اصول ہوتے ہیں، قومیت کے بھی کوئی اصول ہوتے ہیں، ہمارے آباؤ اجداد نے تاریخیں رقم کی ہیں، یہ کونسی تاریخ ہے کہ آپ نہتے لوگوں کو ٹرینوں پر حملہ کرتے ہیں، معصوم عورتوں، بچوں کو مارتے ہیں، اور ان کو یرغمال بناتے ہیں۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ پھر ہمارے ہاں یہ کنفویژن کہ ہم جا کر معافیاں مانگیں، ان کو صاحب کہیں، جو بھی تشدد کرے گا جو ریاست پاکستان کو توڑنے کی بات کرے گا، بندوق اٹھائے گا، ریاست مکمل طور پر ان کا قلع قمع کرے گی، کسی بھی صورت ہے، ہاں جو عام بلوچ ہے، اس کو گلے لگانے کے لیے ریاست ایک بار نہیں 100 بار تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے بچوں کے لیے آکسفورڈ اور ہاورڈ کے دروازے کھول دیے، آج بھی بلوچستان کے تمام بچے ویلفیئر اسٹیٹ کی طرح تعلیم حاصل کر رہے ہیں، عام بلوچ کو گلے لگایا جائے گا، لیکن وہ جو تشدد پر اتر آئے ہیں، جو معصوم لوگوں کا قتل و غارت کررہا ہے، ان کے ساتھ کیا سلوک برتا جائے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ اتنا ہی لڑائی لڑنے کا شوق ہے لڑنے کا تو کنٹونمنٹس ہیں، وہاں پر آجائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک موصوف نے کل کہا کہ جنگ ہار گئے ہیں، او بھائی، ریاست نے یہ جنگ لڑنا ابھی شروع ہی نہیں کی، جس دن ریاست نے یہ جنگ لڑنا شروع کردی تو میں آپ کو بتاؤں گا کہ کون ہارا، کون جیتا، اب بھی ریاست صبر سے کام لے رہی ہے، نہیں لینا چاہیے، میری ذات کا مسئلہ نہیں ہے۔