یوکرینی فوجی کرسک میں ہتھیار ڈال دیں تو جان بخشی، باوقار سلوک کیا جائیگا، پیوٹن
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کرسک کے علاقے میں لڑنے والے یوکرین کے فوجیوں سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے، جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیوٹن پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین کے فوجیوں کی جانیں بچائیں۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق پیوٹن نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا کہ صدر ٹرمپ کے مطالبے سے ہمدردی ہے، پیوٹن نے یوکرین کے رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ ہتھیار ڈالنے کا حکم جاری کریں اور اگر ان کے فوجی ہتھیار ڈال دیں تو انہیں زندگی اور ’باوقار سلوک کی ضمانت‘ دی جائے گی۔
ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیوٹن پر زور دیا کہ وہ یوکرین کے کرسک میں موجود فوجیوں کو چھوڑ دیں، یہ جنگ کے خاتمے کا ’بہت اچھا امکان‘ ہے۔
ٹرمپ نے جمعرات کی رات ماسکو میں پیوٹن کے ساتھ اپنے نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف کی طویل ملاقات کے بعد سوشل میڈیا پر پیغام پوسٹ کیا، ملاقات کو ٹرمپ نے ’بہت اچھا اور نتیجہ خیز‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان ہے کہ یہ خوفناک، خونی جنگ بالآخر ختم ہو سکتی ہے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یوکرین کے ہزاروں فوجی روسی فوج کے گھیرے میں ہیں اور انتہائی خراب اور کمزور حالت میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نے صدر پیوٹن سے پرزور درخواست کی ہے کہ ان کی جانیں بچائی جائیں، یہ ایک ہولناک قتل عام ہوگا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے نہیں دیکھا گیا، خدا ان سب پر رحم کرے!
فوجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرسک میں یوکرین کی افواج روسی علاقے میں اپنے قدم جمانے کے بعد تقریباً منقطع ہو چکی ہیں، تاہم کیف کی فوج کا کہنا ہے کہ محاصرے کا کوئی خطرہ نہیں اور اس کی فوجیں بہتر پوزیشنز پر واپس جا رہی ہیں۔
امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے کینیڈا کے شہر لا مالبائی میں جی سیون اجلاس میں کہا کہ اسٹیو وٹکوف امریکا واپس آ رہے ہیں اور ہفتے کے آخر میں یوکرین کے بارے میں بات چیت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ یقینی طور پر محسوس کرتے ہیں کہ ہم کم از کم اس جنگ کو ختم کرنے اور امن لانے کے قریب ہیں، لیکن یہ اب بھی ایک طویل سفر ہے۔
ماسکو نے جمعے کے روز کہا ہے کہ اس کی افواج نے یوکرین کی افواج کو روس کے علاقے کرسک سے بے دخل کرنے کی مہم میں ایک اور گاؤں پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔
کریملن کا کہنا ہے کہ پیوٹن نے ٹرمپ کو وٹکوف کے ذریعے جنگ بندی کے منصوبے کے بارے میں پیغام بھیجا تھا اور ’محتاط امید‘ کا اظہار کیا تھا کہ 3 سال سے جاری تنازع کے خاتمے کے لیے کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کارولن لیوٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ ٹرمپ نے خود اب تک پیوٹن سے بات نہیں کی ہے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بھی جمعے کے روز کہا تھا کہ انہیں روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے کا اچھا موقع نظر آ رہا ہے۔
انہوں نے جنگ بندی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس اس جنگ کو جلد ختم کرنے اور امن کو یقینی بنانے کا ایک اچھا موقع ہے، ہمارے یورپی شراکت داروں کے ساتھ مضبوط سیکیورٹی مفاہمت ہے، ہم خاموشی اور جنگ ختم کرنے کے پہلے قدم کے قریب ہیں۔
جی سیون کی نئی پابندیوں کی دھمکی
گروپ آف سیون کی طاقتوں نے روس کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ یوکرین کے ساتھ جنگ بندی کو قبول نہیں کرتا تو اس پر نئی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
کیوبیک میں ہونے والے اجلاس میں جی سیون کے وزرائے خارجہ نے یوکرین کی ’علاقائی سالمیت‘ کے لیے لڑائی کی بھی حمایت کی اور روس کی ’جارحیت‘ کے بارے میں بات کی۔
یوکرین کے بارے میں اتفاق رائے جی سیون ممالک برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود سامنے آیا ہے، کیونکہ ٹرمپ نے دوستوں اور دشمنوں دونوں پر سخت محصولات عائد کیے ہیں اور میزبان کینیڈا کی خودمختاری پر سوال اٹھایا ہے۔
جی سیون کے ایک بیان میں یوکرین کی جانب سے 30 روزہ جنگ بندی کے امریکی مطالبے کی حمایت کی گئی، اور روس پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مساوی شرائط پر جنگ بندی پر رضامند ہو اور اس پر مکمل عمل درآمد کرے۔
انہوں نے جنگ بندی پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں روس پر مزید اخراجات عائد کرنے پر تبادلہ خیال کیا جس میں مزید پابندیاں، تیل کی قیمتوں پر پابندی، یوکرین کے لیے اضافی مدد اور منجمد روسی اثاثوں کا استعمال شامل ہے۔
پیوٹن، شہزادہ محمد بن سلمان کی ملاقات
دریں اثنا روسی صدر پیوٹن اور سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اوپیک پلس کے وعدوں کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر اتفاق کیا، اور یوکرین میں امن لانے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔
کریملن کی جانب سے جمعرات کو جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے اوپیک پلس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
پیوٹن نے فروری میں روسی اور امریکی سفارت کاروں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی میزبانی کے حوالے سے سعودی عرب کی ثالثی کی کوششوں پر ولی عہد کا بھی شکریہ ادا کیا تھا۔