سینیٹ: اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل تاحال معلق، اپوزیشن کی تشویش برقرار
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) ترمیمی بل پر جاری تنازع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، سینیٹ میں اپوزیشن اس بل کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے جسے وہ قواعد اور پارلیمانی اصولوں کی خلاف ورزی سمجھتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر سید شبلی فراز نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ بل ہاؤس میں موجود اراکین کی اکثریت کی حمایت کے باوجود معلق ہے۔
سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی کو لکھے گئے ایک خط، جس کی کاپی ڈان کے پاس موجود ہے، میں سینیٹر شبلی فراز نے یاد دلایا کہ سینیٹر محسن عزیز کی جانب سے پیش کردہ ایس بی پی ترمیمی بل پر 17 فروری کو ووٹنگ کی گئی، صوتی رائے شماری کے بعد فزیکل ہیڈ کاؤنٹ کیا گیا اور ہاؤس میں موجود اراکین کی اکثریت نے بل کی حمایت دی۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ بدقسمتی سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے ووٹنگ کے نتائج کا اعلان نہیں کیا اور سینیٹ 2012 کے قواعد و ضوابط کے سیکشن 238 (6) کی خلاف ورزی کی۔
حزب اختلاف کے ارکان نے قواعد و ضوابط اور جمہوری اصولوں کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی کے خلاف احتجاج کیا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ہم ووٹوں کی گنتی کے اعلان کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اس میں نشاندہی کی گئی کہ پارلیمنٹ کے طے شدہ قواعد کو نظر انداز کرکے اس کے تقدس کی خلاف ورزی ان جمہوری اصولوں کی سنگین توہین ہے جو قانون سازی کے عمل کو تقویت دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب اس کے قواعد کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، چاہے وہ خلل ڈال کر ہو یا پارلیمانی آداب کو نظر انداز کرکے، تو یہ ادارے کی ساکھ اور قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتا ہے، اس طرح کی خلاف ورزیاں نہ صرف پارلیمنٹ کے مناسب کام میں رکاوٹ ڈالتی ہیں بلکہ قانون سازی کے نظام میں عوام کے اعتماد کو بھی ختم کرتی ہیں جس سے ممکنہ طور پر بدنظمی اور بے عزتی کے احساس کو فروغ ملتا ہے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ پارلیمنٹ کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے اس کے تقدس کو برقرار رکھا جانا چاہیے تاکہ یہ بحث، فیصلہ سازی اور جمہوری حکمرانی کا ایک فورم رہے۔
قائد حزب اختلاف نے چیئرمین سینیٹ سے درخواست کی کہ وہ ذاتی مداخلت کریں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ نامکمل ایجنڈے کو حتمی شکل دی جائے تاکہ ایوان کی سالمیت اور ساکھ بحال ہو سکے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ایوان کی آئندہ کارروائی اپنی قانونی حیثیت اور وقار کھو دے گی اور عوام کے بہترین مفاد میں کام کرنے کی پارلیمنٹ کی اہلیت پر عوام کے اعتماد کو بھی نقصان پہنچائے گی۔
سینیٹ میں اپوزیشن نے 17 فروری کو اس وقت احتجاج کیا تھا جب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پر فوری غور کے لیے تحریک پر ووٹنگ کی اجازت دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تھا۔
تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز کی جانب سے پیش کردہ بل کو قائمہ کمیٹی برائے خزانہ پہلے ہی منظور کرچکی ہے، جب بل ایوان میں پیش کیا گیا تو حکومت کی جانب سے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا تھا اور اسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا تھا لیکن بل کی منظوری سے قبل وزیر قانون نے اسے موخر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ منی بل ہے اور اسے وفاقی حکومت کی رضامندی کے بعد ہی ایوان میں لایا جاسکتا ہے۔
بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ کمرشل بینکوں کی کم از کم قرض کی حد اس مخصوص صوبے سے ان کے کل ڈپازٹس کے 60 فیصد سے کم نہیں ہونی چاہیے۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ مسودہ قانون وفاقی کنسولیڈیٹڈ فنڈ کو متاثر نہیں کرے گا اور اس میں سرکاری خزانے سے ایک پیسہ بھی شامل نہیں ہوگا، انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو مجموعی طور پر نجی بینکوں کے کل قرضوں کے پورٹ فولیو کا 2 فیصد سے بھی کم ملا ہے جو زکوٰۃ کی رقم سے بھی کم ہے۔
سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سمیت بی اے پی سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے بھی بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ اے این پی کے سینیٹر ہدایت اللہ، پیپلز پارٹی کے 2 اور مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیٹر نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔