مصطفیٰ عامر قتل کیس: مرکزی ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ میں 6 دن کی توسیع
کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کیس میں مرکزی ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ میں 6 دن کی توسیع کردی جبکہ ملزم شیراز کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
ڈان نیوز کے مطابق سینٹرل جیل میں واقع انسداد دہشتگردی عدالت میں مصطفیٰ عامر اغوا اور قتل کیس کی سماعت ہوئی، مرکزی ملزم ارمغان اور شریک ملزم شیراز کو عدالت پہنچایا گیا۔
تفتیشی افسر نے مرکزی ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی درخواست کی اور موقف اپنایاکہ ملزم سے آلہ قتل برآمد کرانا ہے، ایف آئی اے و دیگر اداروں نے بھی تحقیقات شروع کردی ہیں، ملزم نے انکشافات کرنا شروع کردیے ہیں۔
ارمغان کے وکیل نے مزید ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو اب تک کوئی پیشرفت رپورٹ پیش کی گئی ہے اور نہ ہی ان کے موکل کا طبی معائنہ کرایا گیا ہے، ایف آئی اے کومقدمہ درج کرنے کیلئے عدالت سے اجازت لینا ہوگی۔
ملزم ارمغان نے بتایاکہ اسے کپڑے تک تبدیل کرنے نہیں دیے جارہے، کل بھی اس سے کسی کاغذ پر انگوٹھا لگوایا گیا تھا، جس پر سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم انتہائی شاطر اور چالاک ہے، ملزم سے آئرن اسٹک برآمد کرانی ہے جس سے وہ کئی لڑکے اور لڑکیوں کو تشدد کا نشانہ بناتارہا ہے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ ملزم سے برآمد ہونے والے 64 لیپ ٹاپ کے فرانزک بھی کرانے ہیں، ملزم سے جدید اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے، ملزم نے 300 لڑکے لڑکیوں کو ویڈ کے نشے پر لگایا ہوا تھا۔
سرکاری وکیل نے عدالت کے استفسار پر بتایاکہ ملزم کیخلاف سی ٹی ڈی اور دیگر اداروں کے بھی مقدمات ہیں، عدالت نےدلائل سننے کے بعد ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ میں10 مارچ تک توسیع کردی جبکہ شیراز کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔
بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔
ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔
بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔
دریں اثنا 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔