امریکی سپریم کورٹ ٹرمپ کو غیرملکی امدادی گروپوں کی ادائیگی روکنے کی اجازت نہیں دے گی
منقسم امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے غیر ملکی امدادی تنظیموں کو حکومت کے لیے پہلے سے انجام دیے جانے والے کام کے عوض رقم کی ادائیگی روکنے کی درخواست مسترد کردی۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی صدر دنیا بھر میں چلنے والے انسانی ہمدردی کے منصوبوں پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایسے میں امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے ٹرمپ کے فیصلے کو روکا گیا ہے۔
عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو دھچکا دیتے ہوئے 4-5 کے فیصلے میں واشنگٹن میں مقیم امریکی ڈسٹرکٹ جج عامر علی کے حکم کو برقرار رکھا، جس میں انہوں نے انتظامیہ سے کنٹریکٹرز، یو ایس ایڈ اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے گرانٹ حاصل کرنے والوں کو ان کے سابقہ کام کے لیے فوری طور پر فنڈز جاری کرنے کا کہا تھا۔
چیف جسٹس جان رابرٹس اور ان کی ساتھی ایمی کونی بیرٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے عدالت کے 3 لبرل ممبران کے ساتھ اکثریتی فیصلہ دیا، جبکہ کنزرویٹو جسٹس سیموئل علیٹو، کلیرنس تھامس، نیل گورسچ اور بریٹ کاوانوف نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
ٹرمپ کی پالیسی کو درپیش قانونی چیلنج کی وجہ بننے والے جج عامر علی نے اپنے حکم نامے میں انتظامیہ کو فنڈز کی ادائیگی کے لیے 26 فروری تک کا وقت دیا تھا جو تقریباً 2 ارب ڈالر بنتے ہیں اور اس کی مکمل ادائیگی میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
چیف جسٹس جان رابرٹس نے اس حکم کو ڈیڈ لائن سے چند گھنٹے پہلے معطل کردیا تاکہ عامر علی کے فیصلے کو روکنے کے لیے انتظامیہ کی زیادہ باضابطہ درخواست پر غور کرنے کے لیے سپریم کورٹ کو اضافی وقت دیا جائے۔
عدالت نے اپنے غیر دستخط شدہ حکم کے لیے کوئی جواز فراہم نہیں کیا، تاہم اصل ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد عدالت نے جج عامر علی کو ہدایت دی کہ وہ واضح کریں کہ حکومت کو عارضی حکم امتناع کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے کیا ذمہ داریاں پوری کرنی ہوں گی۔
جج عامر علی نے ابتدائی حکم امتناع کے لیے مدعی کی درخواست پر جمعرات کو سماعت مقرر کی ہے، جج کے پاس فی الحال عارضی حکم امتناع موجود ہے جو 10 مارچ تک جاری رہے گا۔
عدالتی فیصلے سے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اختلاف رائے کرنے والے جسٹس سیموئل علیٹو نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا ایک ضلعی عدالت کا جج جس کے پاس دائرہ اختیار بھی نہیں، وہ اتنا طاقت ور ہے کہ امریکی حکومت کو ٹیکس دہندگان کے 2 ارب ڈالر ادا کرنے پر مجبور کرے؟
ان کا کہنا تھا کہ اس سوال کا جواب ’نہیں‘ ہونا چاہیے، لیکن اس عدالت کی اکثریت بظاہر اس کے برعکس سوچتی ہے جس پر میں شدید حیران ہوں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر نے 20 جنوری کو اپنے عہدے پر فائز ہونے کے پہلے دن تمام غیر ملکی امداد کو 90 دن کے لیے روکنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے۔
امریکی صدر نے اپنے سب سے بڑے عطیہ دہندہ اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کی سربراہی میں جنگی اقدامات کا آغاز کیا ہے تاکہ امریکی حکومت کے بڑے حصے کو کم یا ختم کیا جا سکے۔
سب سے زیادہ توجہ امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) پر مرکوز ہے، جو دنیا بھر میں امریکی انسانی امداد کی تقسیم کی بنیادی تنظیم ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ہزاروں غیر ملکی ملازمین کو واپس بلا لیا اور غیر ملکی امداد منجمد کردی۔
اس حکم نامے کے نتیجے میں دنیا بھر میں یو ایس ایڈ کے تحت فراہم کی جانے والے زندگی بچانے والی خوراک اور طبی امداد کی فراہمی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
امدادی تنظیموں نے ٹرمپ پر وفاقی قانون اور امریکی آئین کے تحت اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ایک آزاد وفاقی ادارے کو ختم کرنے اور کانگریس کی جانب سے منظور شدہ اخراجات منسوخ کرنے پر مقدمہ دائر کیا تھا۔