جنرل قمر جاوید باجوہ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ان سے صرف ایک ہی درخواست کی تھی کہ وہ عمران خان کی حکومت کو برطرف کردیں۔
ملکی تاریخ میں مرکزی سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیے جانے کی چند مثالیں موجود ہیں لیکن اس پابندی نے کبھی بھی پارٹی کی عوام میں حمایت اور مقبولیت کو ختم نہیں کیا۔
تمام تر معاملے میں سب سے زیادہ تشویش ناک الیکٹرانک میڈیا کا کردار ہے جسے ججز پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا مگر انہوں نے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا۔
مغربی اتحادیوں اور عالمی برادری کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کے مشورے سے صہیونی حکومت کے پیچھے ہٹنے کا امکان موجود نہیں جوکہ پہلے ہی تنازع کو وسیع کرنے کی کوشش میں ہے۔
اس سے عجیب و غریب صورتحال اور کیا ہوگی کہ خارجہ پالیسی کے امور کا ذمہ دار ایک ایسے شخص کو بنا دیا گیا ہے جو اکاؤنٹینسی کے پس منظر (جو بطور وزیرخزانہ ناکام بھی ہوچکے ہیں) سے تعلق رکھتا ہے۔
صرف معیشت نہیں بلکہ داخلی سلامتی سے متعلق مسائل بھی درپیش ہیں جن پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان وسیع تر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے اور اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کی ضرورت ہے۔
آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ہی صورت حال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ آنے والے طوفان کی سنگینی کے حوالے سے بہت کم لوگوں کو آگہی ہے۔
مودی حکومت کے 5 اگست کے اقدام کی توثیق کرنے والا عدالتی حکم جغرافیائی سیاست پر بھی اثرانداز ہوگا، جس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی بامعنی مذاکرات کا دروازہ بند ہو جائے گا۔
ہماری سیاسی روایات کے مطابق بہت سے الیکٹیبلز اور گروپس مسلم لیگ (ن) کی کشتی میں سوار ہوگئے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا وسیع تر تاثر پارٹی کے حق میں فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔